اسلام آباد —
پاکستان کی وفاقی حکومت نے اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست دائر کی ہے جس میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ اس اہم فیصلے میں صدر مملکت سے متعلق حصے کا از سر نو جائزہ لیا جائے۔
تاہم اطلاعات کے مطابق سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے درخواست کے ہمراہ ’کورٹ فیس‘ کی رسید نا لگانے پر اس پر تکنیکی اعتراضات اٹھاتے ہوئے اسے واپس کر دیا۔
عدالت عظمیٰ میں دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ موجودہ صدر کے دفتر کا 1990 ء میں سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کرنے کے مقدمے سے کوئی تعلق نہیں اس لیے ایوان صدر سے متعلقہ فیصلے میں جن آبزرویشنز یا ’مشاہدات‘ کا ذکر کیا گیا ہے انھیں واپس لیا جائے۔
بزرگ سیاستدان اصغر خان نے 1990ء کے انتخابات میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے بعض سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کرنے کے معاملے کو عدالت میں چیلنج کیا تھا اور گزشتہ ماہ سپریم کورٹ نے اس مقدمے پر اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ صدر وفاق کے اتحاد کی علامت ہوتا ہے اور اگر وہ تمام لوگوں سے برابری کی بنیاد پر برتاؤ نا کرے تو یہ آئین کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔
تاہم درخواست میں کہا گیا ہے کہ عدالت کا ’’مفرضوں‘‘ پر مبنی یہ مشاہدہ صدر کو ہدایت دینے کے مترادف ہے۔
’’عدالت کے سوال پر یہ کہا گیا تھا کہ صدر کے دفتر میں کوئی سیاسی یا انتخابی سیل کام نہیں کر رہا۔‘‘
بعض مبصرین اور قانونی ماہرین کا ماننا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے اس مشاہدے کے بعد صدر آصف علی زرداری جو کہ حکمران پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بھی ہیں اپنی جماعت کی کسی سرگرمی میں شرکت نہیں کرسکتے اور ایسا کرنا توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔
سپریم کورٹ نے گزشتہ ماہ اصغرخان کیس کے فیصلے میں کہا تھا کہ 1990 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو واضح برتری حاصل کرنے سے روکنے کے لیے اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے فوج اور اس کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہان کے ذریعے سیاستدانوں کو رقوم دے کر ایک انتحابی ٹولا بنایا تھا۔
تاہم اطلاعات کے مطابق سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے درخواست کے ہمراہ ’کورٹ فیس‘ کی رسید نا لگانے پر اس پر تکنیکی اعتراضات اٹھاتے ہوئے اسے واپس کر دیا۔
عدالت عظمیٰ میں دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ موجودہ صدر کے دفتر کا 1990 ء میں سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کرنے کے مقدمے سے کوئی تعلق نہیں اس لیے ایوان صدر سے متعلقہ فیصلے میں جن آبزرویشنز یا ’مشاہدات‘ کا ذکر کیا گیا ہے انھیں واپس لیا جائے۔
بزرگ سیاستدان اصغر خان نے 1990ء کے انتخابات میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے بعض سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کرنے کے معاملے کو عدالت میں چیلنج کیا تھا اور گزشتہ ماہ سپریم کورٹ نے اس مقدمے پر اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ صدر وفاق کے اتحاد کی علامت ہوتا ہے اور اگر وہ تمام لوگوں سے برابری کی بنیاد پر برتاؤ نا کرے تو یہ آئین کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔
تاہم درخواست میں کہا گیا ہے کہ عدالت کا ’’مفرضوں‘‘ پر مبنی یہ مشاہدہ صدر کو ہدایت دینے کے مترادف ہے۔
’’عدالت کے سوال پر یہ کہا گیا تھا کہ صدر کے دفتر میں کوئی سیاسی یا انتخابی سیل کام نہیں کر رہا۔‘‘
بعض مبصرین اور قانونی ماہرین کا ماننا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے اس مشاہدے کے بعد صدر آصف علی زرداری جو کہ حکمران پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بھی ہیں اپنی جماعت کی کسی سرگرمی میں شرکت نہیں کرسکتے اور ایسا کرنا توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔
سپریم کورٹ نے گزشتہ ماہ اصغرخان کیس کے فیصلے میں کہا تھا کہ 1990 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو واضح برتری حاصل کرنے سے روکنے کے لیے اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے فوج اور اس کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہان کے ذریعے سیاستدانوں کو رقوم دے کر ایک انتحابی ٹولا بنایا تھا۔