پشاور کے مضافات میں نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے انسداد پولیو مہم کے ایک مقامی انچارج کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔
مقامی پولیس کے مطابق توڈا خزانہ کے علاقے میں ڈاکٹر ذکا اللہ مسجد سے نماز ادا کر کے نکلے ہی تھے کہ پہلے سے گھات لگائے نامعلوم مسلح افراد نے ان پر فائرنگ کر دی۔
فائرنگ سے ڈاکٹر ذکا اللہ زخمی ہو گئے جنہیں اسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے۔
پولیس کا ماننا ہے کہ یہ انسداد پولیو مہم سے وابستہ افراد کو ہدف بنا کر قتل کرنے کا واقعہ ہو سکتا ہے لیکن حکام معاملے کی مختلف پہلوؤں سے تفتیش کر رہی ہے۔
حالیہ برسوں میں پشاور اور صوبہ خیبر پختونخواہ سمیت پاکستان کے مختلف علاقوں میں شدت پسند انسداد پولیو مہم کی ٹیموں اور ان کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکاروں کو نشانہ بناتے آئے ہیں جن میں اب تک درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس تازہ حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان سے علیحدہ ہونے والے ایک شدت پسند دھڑے جماعت الاحرار نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
شدت پسند پولیو کو جاسوسی کے لیے استعمال کرنے کا حربہ تصور کرتے ہیں جس کی بنیاد 2011ء میں ایبٹ آباد میں القاعدہ کے روپوش رہنما اسامہ بن لادن کی شناخت کی تصدیق کے لیے اس علاقے میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کی طرف سے حفاظتی ٹیکوں کی ایک جعلی مہم بتائی جاتی ہے۔
پولیو رضا کاروں پر حملوں کی وجہ سے یہ مہم بار ہا معطل بھی ہو چکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سال پاکستان میں پولیو سے متاثرہ کیسز کی تعداد 300 سے تجاوز کر گئی تھی جو کہ ایک دہائی سے زائد عرصے میں کسی ایک سال میں ریکارڈ کی گئی سب سے زیادہ تعداد تھی۔
تاہم سکیورٹی فورسز کی طرف سے شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں اور انسداد پولیو مہم کو مربوط انداز سے جاری رکھنے کے باعث رواں سال پولیو کیسز میں قابل ذکر حد تک کمی دیکھی گئی ہے۔
پاکستان اور افغانستان دنیا کے وہ دو ملک ہیں جہاں اب بھی انسانی جسم کو اپاہج کر دینے والی بیماری پولیو کے وائرس پر تاحال پوری طرح سے قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔