رسائی کے لنکس

ٹی وی میزبانوں پر پیمرا کی طرف سے پابندی پر ملا جلا ردعمل


انسانی حقوق کے ایک سرگرم کارکن اور ابلاغیات کے استاد ڈاکٹر مہدی حسن نے پیمرا کے اس اقدام کو مناسب قرار دیا لیکن صحافتی برادری کے سرکردہ کارکن رانا عظیم کا موقف ہے کہ پیمرا کو ان لوگوں کا موقف پہلے سننا چاہیے تھا۔

پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کے نگران ادارے "پیمرا" کی طرف سے دو نجی ٹی وی چینلز کے میزبانوں پر ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی سے متعلق موصول ہونے والی شکایات پر پابندی عائد کیے جانے کے فیصلے پر ملا جلا ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔

جمعہ کو پیمرا کی طرف سے جاری کردہ نوٹس میں "آج" ٹی وی کے رمضان کے ایک خصوصی پروگرام کے میزبان حمزہ علی عباسی اور ایک دوسرے ٹی وی چینل "نیوز ون" کے رمضان پروگرام کے میزبان شبیر ابو طالب پر پابندی عائد کرنے کا بتایا گیا۔

نوٹس کے مطابق ان میزبانوں نے اپنے پروگرامز میں "اشتعال انگیز گفتگو کی جو کہ ناظرین کے غم و غصے کی وجہ بنی" اور اس کے خلاف پیمرا کو لاتعداد شکایات موصول ہوئیں۔

پیمرا کے مطابق ٹی وی چینلز حمزہ علی عباسی، شبیر ابو طالب اور مذہبی شخصیت مولانا کوکب نورانی اوکاڑوی کو کسی بھی پروگرام میں شریک ہوکر ایسی گفتگو نہیں کرنے دیں گے اور اگر ایسا کیا گیا تو اس پروگرام کو بند کر دیا جائے گا۔

حمزہ علی عباسی نے اپنے ایک پروگرام میں احمدی برادری سے متعلق بعض سوالات اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ ماہ رمضان کے آخر میں وہ احمدی برادری اور توہین مذہب کے قوانین پر بات کریں گے۔

اس پروگرام کے بعد نیوز ون چینل پر پروگرام کرنے والے شبیر ابو طالب نے اپنے مہمان مولانا کوکب سے استفسار کیا کہ کیا حمزہ کا اس طرح کے موضوع پر بات کرنا درست ہے جس پر مولانا نے سخت الفاظ استعمال کیے جو کہ قواعد کے مطابق مذہبی منافرت یا انتشار کے زمرے میں آتے تھے۔

انسانی حقوق کے ایک سرگرم کارکن اور ابلاغیات کے استاد ڈاکٹر مہدی حسن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں پیمرا کے اس اقدام کو مناسب قرار دیا۔

"جو شرائط ہوتی ہیں لائسنس کی اس میں ایک شرط یہ بھی ہے کہ فرقہ واریت یا مذہبی انتہا پسندی کو فروغ نہیں دیا جائے گا۔۔۔اگر دو لوگوں کی مثال سامنے رکھیں گے لوگ تو شاید احتیاط کریں گے لیکن اگر نہیں کریں گے تو یہ روایت بن جائے گی کہ ان کے ساتھ بھی ایسی کارروائی ہو سکتی ہے۔"

لیکن صحافیوں کی ایک بڑی نمائندہ تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر رانا عظیم کا کہنا ہے کہ پیمرا کو شکایات پر عملدرآمد کرنے سے پہلے ان افراد سے ان کا موقف ضرور سننا چاہیے تھا۔

"کسی شخص کو بھی کسی بھی دوسرے کے مذہب کے بارے میں بات کرنے کی اجازت نہیں لیکن پیمرا کو بھی یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ بغیر کسی انتباہ کے کسی پر پابندی عائد کر دے۔ اگر شکایت آئی ہے تو اس شخص کا موقف بھی سننا چاہے ہوسکتا ہے اس نے اپنی بات کو کسی اور طریقے سے کیا ہو۔"

پیمرا نے اپنے نوٹس میں پابندی کا نشانہ بننے والے افراد سے کہا ہے کہ وہ آئندہ پیر کو کراچی میں ادارے کی متعلقہ کونسل کے سامنے پیش ہو کر اپنا موقف پیش کریں جس کے بعد اس ضمن میں پیمرا حتمی فیصلہ دے گا۔

اس سارے معاملے پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بھی خاصی بحث جاری ہے۔

XS
SM
MD
LG