پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ بعض عناصر مستونگ جیسے ہلاکت خیز واقعات کے ذریعے صوبے میں خانہ جنگی کی آگ کو بھڑکا کر پاکستان کو تباہی سے دو چار کرنا چاہتے تھے جسے ان کے بقول صوبائی حکومت اور حزب مخالف کی جماعتوں نے اتحاد و اتفاق سے ناکام بنا دیا ہے۔
یہ بات انھوں نے مستونگ واقعے سے پیدا ہونے والی صورتحال کے تناظر میں منگل کو کوئٹہ میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
گزشتہ جمعہ کو عسکریت پسندوں نے کوئٹہ سے کراچی جانے والی دو بسوں کو مستونگ کے علاقے میں روک کر ان پر سوار 22 مسافروں کو شناخت کے بعد قتل کر دیا تھا۔ مارے جانے والوں میں اکثریت پشتون قبائل سے تعلق رکھتی تھی۔
اس حملے کی ذمہ داری ایک کالعدم بلوچ عسکری تنظیم یونائیٹڈ بلوچ آرمی نے قبول کی تھی۔
آل پارٹیز کانفرنس میں مختلف سیاسی جماعتوں کے صوبائی قائدین بھی شریک تھے جنہوں نے صوبے میں امن و امان کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ صوبے میں قیام امن کے لیے جو بھی فیصلے کیے گئے ہیں ان پر ہر حال میں عملدرآمد کیا جائے گا۔
"جب اتنے بڑے فیصلے ہم نے کیے ہیں تو اب ان فیصلوں سے پیچھے نہیں ہٹنا ہے، ہم نے ان کو بالکل مکمل کرنا ہے اور دہشت گردی کو ختم کرنا ہے اور ان فیصلوں کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانا ہے۔"
انھوں نے کسی بلوچ تنظیم کا نام لیے بغیر کہا کہ صوبے میں بعض ایسے عناصر ہیں جن کا ایجنڈا کچھ اور ہے لیکن ان کے بقول بلوچستان کو ایک بار پھر پرامن صوبہ بنایا جائے گا۔
بلوچستان میں گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے مختلف تنظیمیں صوبے کے وسائل میں زیادہ اختیارات اور صوبائی خودمختاری کے لیے مسلح مزاحمت کرتی چلی آرہی ہیں۔
وزیراعظم نے ناراض بلوچ رہنماؤں کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے صوبائی وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ کو ذمہ داری سونپی تھی لیکن ان کی متعدد کوششوں کے باوجود اس ضمن میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔