رسائی کے لنکس

کیا پاکستان کا آنے والا بجٹ مشکل ہوگا؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کا دو ہزار بیس۔اکیس کا بجٹ اگلے ماہ پیش کیا جائے گا۔ ایک ایسی صورت حال میں جب پاکستان کی پہلے ہی سے کمزور معیشت کو کرونا وائرس کی وجہ سے شدید جھٹکا لگا ہے اور ٹیکس کی وصولی کے لئے جو ہدف مقرر کیا گیا تھا اس میں کمی کے باوجود بھی پہلی چوتھائی میں مقررہ ہدف حاصل نہیں ہو سکا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بجٹ وضع کرنا ایک مشکل مرحلہ ہوگا۔

please wait

No media source currently available

0:00 0:04:01 0:00

لیکن، ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیٹ فنانسنگ یعنی قرضوں کی ادائیگی میں تاخیر کی سہولت اور اگر ضرورت پڑے تو بانڈز لانچ کرکے پاکستان کرونا کے بعد کے دور میں اپنی مالی مشکلات پر کسی حد تک قابو پا سکتا ہے۔

ڈاکٹر ایوب مہر فیڈریشن آف پاکستان اکنامک کونسل سے وابستہ ایک ماہر معاشیات ہیں۔ انہوں نے اس حوالے سے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں اس مالی سال میں ٹیکس کی وصولی کی حد پانچ اعشاریہ چار ٹریلین سے کم کرکے تین اعشاریہ نو ٹریلین روپئے کر دی گئی تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، پہلی چوتھائی میں کوئی 95 فیصد ہدف حاصل کر لیا گیا ہے۔ لیکن دوسری اور اس کے بعد کی چوتھائیوں میں ٹیکس کی وصولی کا ہدف کس حد تک پورا ہو سکے گا؟ یہ غیر یقینی ہے، کیونکہ یہ وہ دور ہے جس کے دوران کرونا کی وجہ سے لاک ڈاؤن کے سبب اقتصادی سرگرمیاں بالکل بند رہیں۔

انہوں نے بتایا کہ آئندہ سال کے بجٹ میں ان کے خیال میں مکمل انحصار ڈیٹ فنانسنگ پر ہو گا۔ اور شاید کوئی دوسرا آپشن دستیاب بھی نہیں ہو گا۔ اور دنیا کے دوسرے ماہرین معاشیات کا بھی یہی خیال ہے کہ ترقی پذیر ملکوں کے لئے مالی بحران سے نکلنے کے لئے یہ دیٹ فنانسنگ ہی بہتر آپشن ہے۔

ڈاکٹر مہر نے کہا کہ آئندہ بجٹ میں ٹیکس بڑھانے کی نہیں بلکہ موجودہ حالات کے تناظر میں محصولات کم کرنےکی بات قرین قیاس ہے۔

انہوں نے کہا کہ نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی کے اعداد و شمار کے مطابق دو ہزار بیس اکیس میں شرح نمو جو اس وقت اعشاریہ تین نو فیصد منفی ہے ایک اعشاریہ پانچ فیصد منفی تک جا سکتی ہے اور 1951-52 کے بعد یہ پہلا موقع ہو گا پاکستان میں شرح نمو منفی میں جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں سے خاطر خواہ مدد نہیں ملتی تو پاکستان کے پاس ایک آپشن یہ ہے کہ وہ بین الاقومی مارکیٹ میں بانڈز لانچ کر دے۔

اور وہ یہ تجربہ پیرس میں دو سو ملین ڈالر کے بانڈز لانچ کرکے کر بھی چکا ہے، جو یورپی سرمایہ کاروں نے انفرادی سطح پر خریدے اور یوں پاکستان کو کم شرح سود پر انفرادی قرضے مل گئے اور مستقبل میں بھی مل سکتے ہیں۔

پاکستان کے ایوان زیریں میں اسٹنڈنگ کمیٹی برائے فنانس کے چیئرمین فیض اللہ کموکا نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عالمی مالیاتی اداروں سے پاکستان کو کوئی ساڑھے تین ارب ڈالرز ملے ہیں اور حکومت پر امید ہے کہ وہ مالی مشکلات پر قابو پالے گی۔

انہوں نے اعتراف کیا کہ ٹیکس کی وصولی کی رفتار کچھ بہت اچھی نہیں ہے۔

لیکن، انہوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن کے سبب اقتصادی سرگرمیاں بالکل بند تھیں۔ اب یہ سرگرمیاں بحال ہو گئی ہیں۔ اور بقول ان کے، انڈسٹری بھی کوئی 80 فیصد کھل گئی ہے اور یہ کہ ان کے مستقبل کا منظرنامہ مایوس کن نہیں ہے۔

XS
SM
MD
LG