شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ میں برسراقتدار جماعت پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے حکومتی اتحادی میں شامل قومی وطن پارٹی کو یک طرفہ طور پر علیحدہ کیے جانے کے بعد اس پارٹی کے حکومتی عہدیداروں نے اتوار کو اپنے استعفے پیش کر دیے۔
استعفے دینے والوں میں سکندر حیات شیرپاؤ اور انیسہ زیب طاہر خیلی صوبائی وزیر تھے جب کہ ارشد عمرزئی اور عبدالکریم وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی کے عہدوں پر فائز تھے۔
ہفتہ کو دیر گئے ایک پریس کانفرنس میں صوبائی وزیراطلاعات شاہ فرمان نے دعویٰ کیا کہ قومی وطن پارٹی نے پاناما پیپرز کے معاملے پر تحریک انصاف کے موقف کی بجائے سابق وزیراعظم نواز شریف کی حمایت کی تھی۔
قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ یہ کہتے آئے تھے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو ان کی جماعت بھی قبول کرے گی جب کہ تحریک انصاف روز اول سے نواز شریف سے استعفے کا مطالبہ کرتی آ رہی تھی۔
گزشتہ جمعہ کو سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لیے نا اہل قرار دے دیا تھا۔
2013ء کے عام انتخابات کے بعد سے یہ دوسرا موقع ہے کہ تحریک انصاف نے قومی وطن پارٹی کے ساتھ حکومتی اتحاد ختم کیا ہے۔
اس سے قبل نومبر 2013ء میں اس جماعت سے تعلق رکھنے والے دو صوبائی وزراء کو بدعنوانی کے الزام میں کابینہ سے برخاست کر دیا گیا تھا لیکن پھر اگست 2015ء میں ایک بار پھر دونوں جماعتوں نے ایک معاہدے کے تحت دوبارہ اتحاد قائم کر لیا تھا۔
قومی وطن پارٹی کے صوبائی سربراہ سکندر حیات نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ تحریک انصاف نے انھیں اس فیصلے کی وجہ نہیں بتائی اور معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یہ اقدام کیا۔
"ہم ایک سیاسی جماعت ہیں کسی بی ٹیم نہیں ہیں نہ کسی کے پیچھے چل سکتے ہیں، ہمارا اپنا ایک منشور ہے اپنا نظریہ ہے اس کے مطابق ہی چلیں گے۔"
گو کہ اس بارے میں صوبائی وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی طرف سے تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے اور ایسی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف میں پرویز خٹک سے متعلق بھی بعض راہنما تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔
قومی وطن پارٹی کی صوبائی اسمبلی کے 123 کے ایوان میں 10 نشستیں ہیں اور ان کے حکومتی اتحاد سے علیحدہ ہو جانے سے بظاہر صوبائی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔