رسائی کے لنکس

پاکستانیوں کی اکثریت کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں


پاکستان کے وزیر مملکت برائے سائنس و ٹیکنالوجی دوستین خان ڈومکی نے قومی اسمبلی میں ایک تحریری جواب میں ایوان کو آگاہ کیا کہ ملک کے مختلف حصوں سے حاصل کیے گئے 69 سے 85 فیصد نمونوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ دستیاب پینے کا پانی آلودہ ہے۔

اُنھوں نے یہ جواب پاکستان میں پینے کے پانی کی صورت حال سے متعلق پوچھے ایک سوال پر دیا۔

ایوان میں جمع کرائے گئے تحریری بیان میں عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او اور اقوام متحدہ کے بچوں سے متعلق ادارے ’یونیسف‘ کی رپورٹ کا حوالہ بھی دیا گیا کہ پاکستان میں صرف 36 فیصد آبادی پینے کا صاف پانی استعمال کر رہی ہے۔

پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کے چیئرمین ڈاکٹر محمد اشرف نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اُن کے ادارے نے ملک کے مختلف حصوں سے پانی کے نمونے حاصل کرنے کے منصوبوں کا آغاز 2002 میں کیا تھا۔

’’تقریباً 70 فیصد آلودگی کی نوعیت معمولی یا بیکٹریل ہے جسے احتیاطی یا پانی کو صاف کرنے کے طریقوں سے دورہ کیا جا سکتا ہے جب کہ 24 فیصد آلودگی زہریلے مواد آرسکین کے سبب ہے۔‘‘

ڈاکٹر اشرف نے بتایا کہ اُن کے ادارے نے صوبائی حکام سے کہا کہ جہاں بھی اُنھیں ضرورت ہو پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز اُن کی معاونت کے لیے تیار ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز ایک تحقیقی ادارہ ہے جو تحقیق اور مختلف اداروں کی استعداد کار بڑھانے کے لیے ہی مدد فراہم کر سکتا ہے۔

رواں سال اگست میں عالمی ادارہ صحت کی ایک تحقیقی رپورٹ سامنے آئی تھی جس میں پاکستان میں پینے کے پانی میں زہریلے مواد آرسینک یا ’سنکھیا‘ کی موجودگی کا انکشاف کیا گیا۔

رپورٹ کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ پانی میں ’سنکھیا‘ یا ’آرسینک‘ مادے کی انتہائی زیادہ مقدار ہے، جس سے لگ بھگ چھ کروڑ افراد کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

سنکھیا یا آرسینک ایسی دھات ہے جو گرم پانی میں حل ہو جاتی ہے اور اس کا ذائقہ بھی نہیں ہوتا۔ اس کی انتہائی کم مقدار بھی زندگی کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان میں آلودہ پانی کی ایک بڑی وجہ ملک کے کئی علاقوں خصوصاً شہروں میں پینے کے صاف پانی اور سیورج لائنوں کا ایک دوسرے کے بہت قریب قریب بچھے ہونا ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق ملک میں سالانہ اربوں روپے آلودہ پانی پینے سے پیدا ہونے والی بیماریوں پر خرچ کیے جاتے ہیں۔ صاف پانی کی دستیابی سے نہ صرف اسپتالوں پر مریضوں کو بوجھ کم ہو گا بلکہ صحت کے وسائل دیگر مریضوں کے علاج پر صرف ہو سکیں گے۔

XS
SM
MD
LG