پاکستان میں حکومت حالیہ برسوں میں یہ کوشش کرتی آئی ہے کہ ملک میں قائم دینی مدارس کو مرکزی تعلیمی دھارے میں لایا جائے اور مدارس کے نصاب میں دور حاضر کے عصری مضامین کو بھی شامل کیا جائے۔
اس بارے میں دینی مدارس کی منتظم تنظیموں اور دیگر فریقوں کے ساتھ حکومت کے کئی مشاورتی اجلاس بھی ہوئے۔
وفاقی وزیر مملکت برائے تعلیم و اُمور داخلہ بلیغ الرحمٰن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس بارے میں ابھی بہت سا کام ہونا باقی ہے۔
’’مدارس بھی ’آن بورڈ‘ ہیں، وہ بھی چاہتے ہیں کہ تمام عصری مضامین کو شامل کیا جائے، اس کے لیے کاوشیں کی جا رہی ہیں۔ کچھ جگہوں پر پڑھایا جانا شروع ہو چکا ہے، لیکن ابھی بھی بہت سے مدارس رہتے ہیں اور اس کے لیے ہم کاوش کر رہے ہیں۔‘‘
ایک مذہبی شخصیت راغب نعیمی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ عصری مضامین اگر مدارس کے نصاب میں شامل ہوں تو اُن کے بقول اس سے دینی مدارس سے تعلیم مکمل کرنے والے زیادہ بہتر انداز میں معاشرے میں فعال کردار ادا کر سکیں گے۔
تاہم اُن کے بقول اس راہ میں بہت سے چیلنج ہیں۔
’’کئی سطحوں پر چیلنج ہیں، مثال کے طور پر انگلش زبان کا ایک استاد جب ہم مارکیٹ سے لینا چاہتے ہیں تو وہ کم از کم 20 سے 25 ہزار روپے میں دستیاب ہو پاتا ہے پورے مہینے کے لیے۔ جب کہ دینی مدارس میں وسائل کم ہیں اور حکومت کی طرف سے کوئی ایسی حکمت عملی بھی نہیں ہے کہ دینی مدارس اچھے انداز میں کام کر سکیں تو انھیں سب سے پہلے تنخواہیں دینے کا معاملہ درپیش ہو گا جس کی وجہ سے بالعموم (مدارس) اس جانب توجہ نہیں کر پاتے۔‘‘
ماہرین تعلیم بھی یہ کہتے رہے ہیں کہ مدارس کو مرکزی دھارے میں لانا اور ان کے ںصاب کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
پاکستان بھر میں ہزاروں کی تعداد میں مدارس قائم ہیں جہاں لاکھوں کی تعداد میں طالب علم مذہبی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ بعض مدارس ملک میں انتہا پسندی کے فروغ کا باعث بن رہے ہیں اس لیے ان کے تعلیمی نصاب میں اصلاحات ضروری ہیں۔
لیکن پاکستان کی حکومت کا کہنا ہے کہ ملک میں موجود نوے فیصد سے زائد مدارس کا انتہا پسندی اور دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں اور حکام کے مطابق جن مدرسوں کے خلاف شواہد ملتے ہیں ان کے خلاف کارروائی بھی کی جاتی ہے۔
واضح رہے کہ ماضی میں حکومت اور دینی مدارس کی نمائندہ تنظیموں کے اجلاسوں میں اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ مدارس ثانوی تعلیم کے وفاقی بورڈ کا مروجہ نصاب اپنائیں گے اور اس ضمن میں وفاقی تعلیمی بورڈ مدارس کو تربیت اور استعداد کار بڑھانے کے لیے معاونت فراہم کرے گا۔