پاکستان میں حزب مخالف کی ایک بڑی جماعت تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں بھی ’رینجرز‘ کے آپریشن کا مطالبہ کیا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ جس طرح کراچی میں جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گردوں کے خلاف رینجرز کا آپریشن جاری ہے، اُسی طرح کا آپریشن لاہور میں بھی ہونا چاہیئے۔
عمران خان نے یہ بات لاہور میں اپنی جماعت کے کارکن کی حالیہ ہلاکت کے بعد کہی۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اتوار کو ایک تحریری بیان میں الزام لگایا کہ اُن کی جماعت کے حال ہی میں قتل کیے گئے رکن مرزا تنویر کے قاتل کھلے عام گھوم رہے ہیں۔
عمران خان نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ صوبہ پنجاب میں سیاسی کارکنوں کو ہدف بنا کر قتل کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور اُن کے بقول پنجاب حکومت ایسے واقعات کو روکنے میں ناکام ہو گئی ہے۔
لیکن پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ عمران خان کا بیان زمینی حقائق کے برعکس ہے۔
رانا ثنا اللہ کے بقول تحریک انصاف کے کارکن کے قتل کی وجہ اُن کی ذاتی دشمنی تھی اور پولیس بہت جلد قاتلوں کو گرفتار کر لے گی۔
پنجاب کے وزیر قانون نے کہا کہ عمران خان محض سیاسی مقاصد کے لیے ایسے بیانات دیتے ہیں۔
’’کالعدم تنظمیں جو ہیں ان کے خلاف جتنا بے رحمانہ ایکشن پورے پنجاب میں ہوا ہے اس کی مثال ملک کے کسی دوسرے حصے میں نہیں ملتی اور پچھلے چھ ماہ میں تقریباً 149 (جیٹ بلیک ٹیررسٹس)، یہ ایک خاص لفظ ہے جس کے معنی ہیں ایسے دہشت گرد جو کسی نہ کسی واقعہ میں ملوث ہوں اور جن کے سر کی قیمت ہو، وہ ہلاک ہوئے ہیں، اور تقریباً 200 کے قریب گرفتار ہو کر اس وقت وہ مختلف ہائی سکیورٹی جیلوں میں ہیں تو اس سے بڑی کارروائی کا تو تصور نہیں کیا جا سکتا۔۔ عمران خان صاحب جو ہیں وہ صرف اپنے سیاسی و ذاتی مقاصد کی خاطر قومی ایجنڈے کو ہمیشہ الجھانے کی کوشش کرتے ہیں اور اسی طرح کا بیان انھوں نے بغیر سوچے سمجھے داغ دیا ہے۔‘‘
عمران خان نے اپنے بیان میں یہ بھی الزام لگایا کہ پنجاب پولیس اُن کے بقول حکومت کا ’اعلیٰ کار‘ بن گئی ہے۔ اُنھوں نے حال ہی میں اسلام آباد میں ایک پولیس تھانے کے قریب ملک کے سابقہ چیئرمین سینیٹ محمد میاں سومرو کے بھانجے کے قتل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی دارالحکومت میں بھی رینجرز کو کارروائی کرنی چاہیئے۔
تجزیہ نگار لفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کہتے ہیں کہ بظاہر لاہور میں تو اس وقت رینجرز کے آپریشن کا کوئی جواز نہیں البتہ اُن کے بقول اگر عمران خان جنوبی پنجاب میں ایسی کارروائی کا مطالبہ کرتے تو زیادہ موزوں ہوتا۔
’’دیکھیے کسی ایک آدھ واقعے کی وجہ سے تو ایسے آپریشن کا جواز نہیں بنتا، کیونکہ پولیس (لاہور) میں موجود ہے اور اس کا کام ہے کہ وہ وہاں پر امن و امان کو دیکھے۔۔۔۔ لیکن جنوبی پنجاب کے بارے میں ہم کہتے رہے ہیں، کیونکہ وہاں سے فرقہ وارانہ دہشت گردی اٹھی تھی۔ کچھ پنجابی طالبان وہاں سے اٹھے تھے ۔۔۔ اور اس کے بارے میں اگر عمران خان کہیں یا کوئی بھی مطالبہ کرے تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ مناسب ہے وہاں پر اگر (اس وقت) واقعات نہیں بھی ہو رہے تو میرا خیال ہے کہ ممکن ہے ہو سکتے ہیں اس وجہ سے جنوبی پنجاب میں تو جواز بنتا ہے لیکن لاہور یا ایسی جگہوں پر جہاں پر ایسے واقعات ہوں وہاں پولیس کی اپنی تعداد بھی کافی ہے اور پولیس کی ذمہ داری بھی ہے۔‘‘
پاکستان کے صوبہ پنجاب، خاص طور پر اس صوبے کے جنوبی اضلاع میں رینجرز کی کارروائی کے مطالبات اس سے قبل بھی سامنے آتے رہے ہیں۔
رواں سال اپریل میں صوبہ پنجاب کے جنوبی علاقوں میں سرگرم جرائم پیشہ گروہ ’’چھوٹو گینگ‘‘ کے خلاف جب پولیس کو کامیابی نہیں ملی تو فوج نے کارروائی کی تھی جس کے بعد اس گینگ کے سربراہ غلام رسول نے فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔
پنجاب میں کچے کے علاقے میں فوج کی قیادت میں اتنا بڑا آپریشن ایک غیر معمولی اقدام تھا کیوں کہ ماضی میں اس صوبے میں فوج یا رینجرز کی قیادت میں ایسی کارروائیاں نہیں ہوئیں۔ البتہ انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر پنجاب کے شہری علاقوں میں محدود کارروائیاں ہوتی رہی ہیں۔
پاکستان کی عسکری قیادت کی طرف سے حالیہ ہفتوں میں تواتر سے ایسے بیانات سامنے آئے ہیں کہ ملک میں جہاں کہیں بھی دہشت گرد، اُن کے معاونین یا پناہ گاہیں ہوں گی اُن کو ختم کیا جائے گا۔
جب کہ جنرل راحیل شریف نے ملک بھر میں ’کومبنگ آپریشن‘ کی بھی منظوری دی تھی۔
رواں ماہ ہی پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے انسداد دہشت گردی کے قومی لائحہ عمل پر مکمل عملدرآمد کے عزم کو بھی دہراتے ہوئے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی جو اس ضمن میں پیش رفت کی نگرانی کرے گی، اس کمیٹی کے سربراہ وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی لفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ناصر خان جنجوعہ کو بنایا گیا ہے۔