خیبرپختونخواہ کے صوبائی دارالحکومت میں حالیہ چند دنوں سے ایک بار پھر ٹریفک پولیس اہلکار اشہتاری بورڈز اور رکشوں کے پیچھے لگے اشتہاروں میں مرد و خواتین ماڈلز کے چہروں کو سیاہ رنگ سے چھپا رہے جس سے ایک نئی بحث شروع ہو گئی ہے۔
2003ء میں ایسے ہی اقدام اس وقت صوبے میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس کی حکومت کی طرف سے دیکھنے میں آئے تھے جس کی وجہ حکام کے بقول ان اشتہارات پر بنی تصویروں کو غیر اسلامی ہونا تھا۔
لیکن 2013ء سے صوبے میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے اور اب پولیس اہلکاروں کی طرف سے اس طرح کے اقدام پر مختلف سماجی حلقوں کی طرف سے حیرانی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
گو کہ ٹریفک پولیس حکام ماڈلز کے چہروں پر سیاہ رنگ لگا کر چھپانے سے انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ صرف ان اشہتاروں کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے جن میں اسلحہ وغیر دکھایا جا رہا ہے۔ لیکن قرائن کچھ اور ہی روداد سناتے نظر آتے ہیں۔
وائس آف امریکہ نے جب اس بابت سینیئر سپریٹنڈنٹ ٹریفک پولیس سے رابطہ کیا تو ان کا استدلال تھا کہ ایسے اشہتارات جن میں بندوقیں اور کلاشنکوف تھامے ماڈلز کھڑے ہیں ان پر ہی سیاہ رنگ لگایا جا رہا ہے تاکہ اسلحہ برداری کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔
لیکن سامنے آنے والی متعدد تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ٹریفک پولیس کے اہلکار کئی ایسے اشہتاروں کو بھی خراب کر رہے ہیں جن میں اسلحہ کی نمائش نہیں کی جا رہی۔
انسانی حقوق کے ایک سرگرم کارکن قمر نسیم اس اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ اس سے بنیاد پرست طبقے کی حوصلہ افزائی ہو گی۔
ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ یہ نئی بات نہیں ہے جب بھی تشدد پسندی کی بات ہوتی ہے تو خیبر پختونخواہ اور ملک کے اندر ایسی مہم شروع ہو جاتی ہے۔
"اگر پولیس یہ کام کر رہی ہے تو جو مدارش کے طلبہ ہیں یا مذہبی جماعتوں کے لوگ ہیں تو ان کو کھلی چھٹی دینے مترادف ہے کہ پھر وہ گاڑیوں کو بھی روکیں گے، سی ڈی کی دکانیں بھی جلائیں گے اور بل بورڈز پر بھی حملے کریں گے۔"
ان کا کہنا تھا کہ ایسے اقدام سے معاشرے میں بنیاد پرستی پر مبنی سوچ کے پھیلنے کا خدشہ ہے۔