رسائی کے لنکس

سکھ دکاندار کو تبدیل مذہب کی مبینہ دعوت پر سرکاری افسر کی معذرت


فائل فوٹو
فائل فوٹو

صوبہ خیبر پختونخواہ کے صوبائی دارالحکومت کے جنوبی ضلع ہنگو میں سکھ برادری میں پائی جانے والی تشویش اس وقت ختم ہوگئی جب ڈپٹی کمشنر کے ساتھ ہونے والے جرگے میں سرکاری عہدیدار نے سکھ برادری کی دل آزادی پر معذرت کی۔

دو روز قبل ہنگو کے علاقے تھل میں دکانداروں کے ایک وفد نے اسسٹنٹ کمشنر ایوب خان سے ملاقات کی تھی جس میں سکھ برادری کے لوگ بھی شامل تھے۔

اس دوران مبینہ طور پر ایوب خان نے سردار سوہندر سنگھ کو مبینہ طور پر اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کرنے کا کہا جس پر سکھ برادری نے برہمی کا اظہار کیا۔

بعد ازاں صوبے میں سکھ برادری کے راہنماؤں کی طرف سے یہ معاملہ اٹھایا گیا جس پر اسسٹنٹ کمشنر کو معطل کر دیا گیااور اتوار کو اس ضمن میں ڈپٹی کمشنر نے ان افراد سے ملاقات کر کے معاملے کو افہام و تفہیم سے حل کروایا۔

ڈپٹی کمشنر شاہد محمود نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ملک میں آباد غیر مسلموں کو حاصل مذہبی آزادی کے حق کو یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے اور وہ اس پر سختی سے کاربند ہیں۔

"ہم نے ان کو یقین دلایا ہے کہ یہ حکومت کی زمہ داری ہے کہ جس طرح آئین میں بھی لکھا ہے کہ مذہبی آزادی ہے ہر شخص کو بشمول اقلیتوں کے، اس کو حکومت یقینی بنائے گی اور جو ان کی دل آزاری ہوئی ہے اس کے لیے ہم ہم معذرت خواہ اگر ایسا کچھ ہوا ہے تو۔"

تاہم انھوں نے اس بارے میں تفصیل بتانے سے گریز کیا کہ اسسٹنٹ کمشنر نے کیا الفاظ استعمال کیے تھے جو سکھ برادری کی دل آزاری کا باعث بنے۔

سردار سوہندر سنگھ کے مطابق جب اسسٹنٹ کمشنر ایوب خان نے انھیں مبینہ طور پر مذہب تبدیل کرنے کا کہا تو انھوں نے سرکاری افسر کو باز رہنے کی درخواست کی لیکن ان کے بقول ایوب خان نے اس ردعمل کے باوجود اپنی بات کو دہرایا۔

جرگے مں شامل سکھ برادری کے ایک سرکردہ راہنما سردار گرپال سنگھ کے مطابق اب معاملہ حل ہو گیا ہے اور انھیں اسسٹنٹ کمشنر سے کوئی شکایت نہیں۔

"پختو روایات کے مطابق یہ ہمارے گھر آئے تھے اور آج بھی جو میٹنگ کال کی گئی تھی اس میں انھوں نے معذرت کی تو جب کوئی غلطی کو تسلیم کرتا ہے تو اس کو معاف کر دیا جاتا ہے۔"

ان کا کہنا تھا کہ وہ حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ سکھ برادری کی اس شکایت پر انھوں نے فوری ایکشن لیا۔

XS
SM
MD
LG