کوئٹہ —
پاکستان اور ایران کے حکام نے دونوں ملکوں کے درمیان سرحدوں پر پیش آنے والے غیر قانونی واقعات کی روک تھام کے لیے ایک مشترکہ کمیٹی بنانے پر اتفاق کیا ہے۔
پاکستان اور ایران کے سرحدی کمیشن کے تین روزہ اجلاس کے اختتام پر جمعہ کو کوئٹہ میں چیف سیکرٹری بلوچستان بابر فتح محمد یعقوب اور ایرانی صوبے سیستان بلوچستان کے نائب گورنرعلی اصغر شکاری نے ایک مشترکہ نیوز کانفرنس میں بتایا کہ سرحدی معاملات کا جائزہ لینے والے کمیشن کو مزید موثر بنانے پر بھی اتفاق کیا گیا۔
علی اصغر شکاری ایران کی سرحدی فورسز کے سربراہ بھی ہیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ بعض دہشت گرد تنظمیں سرحد پر پاکستانی علاقے میں موجود ہیں جنہیں ایران اپنے لیے خطرہ تصور کرتا ہے۔
’’اس اجلاس میں ایک اہم موضوع ایرانی سرحدی محافظوں کا واقعہ بھی تھا جس پر پاکستانی حکام سے بات ہوئی، اس واقعے سے ہمارے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔‘‘
چیف سیکرٹری بلوچستان بابر فتح نے کہا کہ ایرانی حکام کے خدشات اور تحفظات کو دور کرنے کے لیے مکمل یقین دہانی کروائی گئی ہے۔
’’جتنے تحفظات دونوں اطراف کو ہوں گے باہمی اتفاق کے ذریعے اور باہمی میل جول کے ذریعے ان کو حل کروایا جائے گا۔ ۔ ۔ (دونوں ملکوں کے ) مختلف کمیشنز اگر باقاعدگی سے ملتے رہیں تو دونوں ممالک اور ان کے عوام کے درمیان کسی قسم کی غلط فہمی پیدا نہیں ہوگی۔‘‘
رواں ماہ کے اوائل میں ایرانی حکام نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ شدت پسند اس کے پانچ سکیورٹی اہلکاروں کو اغوا کر کے پاکستانی علاقے میں لے گئے ہیں اور ان کے بقول اگر اہلکاروں کی بازیابی کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو ایرانی فورسز پاکستانی علاقے میں کارروائی کے لیے داخل ہوسکتی ہیں۔
پاکستان نے ان بیانات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایرانی فورسز کو اس کے علاقے میں کارروائی کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
ماضی میں بھی دونوں ملکوں کی طرف سے ایک دوسرے پر سرحدی خالف ورزیوں کے الزامات سامنے آتے رہے ہیں۔
تاہم پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان دیرینہ دوستانہ تعلقات کسی ایک واقعے سے متاثر ہونے کا خدشہ نہیں اور دونوں ملکوں ایسے معاملات کو مل بیٹھ کر حل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
پاکستان اور ایران کے سرحدی کمیشن کے تین روزہ اجلاس کے اختتام پر جمعہ کو کوئٹہ میں چیف سیکرٹری بلوچستان بابر فتح محمد یعقوب اور ایرانی صوبے سیستان بلوچستان کے نائب گورنرعلی اصغر شکاری نے ایک مشترکہ نیوز کانفرنس میں بتایا کہ سرحدی معاملات کا جائزہ لینے والے کمیشن کو مزید موثر بنانے پر بھی اتفاق کیا گیا۔
علی اصغر شکاری ایران کی سرحدی فورسز کے سربراہ بھی ہیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ بعض دہشت گرد تنظمیں سرحد پر پاکستانی علاقے میں موجود ہیں جنہیں ایران اپنے لیے خطرہ تصور کرتا ہے۔
’’اس اجلاس میں ایک اہم موضوع ایرانی سرحدی محافظوں کا واقعہ بھی تھا جس پر پاکستانی حکام سے بات ہوئی، اس واقعے سے ہمارے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔‘‘
چیف سیکرٹری بلوچستان بابر فتح نے کہا کہ ایرانی حکام کے خدشات اور تحفظات کو دور کرنے کے لیے مکمل یقین دہانی کروائی گئی ہے۔
’’جتنے تحفظات دونوں اطراف کو ہوں گے باہمی اتفاق کے ذریعے اور باہمی میل جول کے ذریعے ان کو حل کروایا جائے گا۔ ۔ ۔ (دونوں ملکوں کے ) مختلف کمیشنز اگر باقاعدگی سے ملتے رہیں تو دونوں ممالک اور ان کے عوام کے درمیان کسی قسم کی غلط فہمی پیدا نہیں ہوگی۔‘‘
رواں ماہ کے اوائل میں ایرانی حکام نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ شدت پسند اس کے پانچ سکیورٹی اہلکاروں کو اغوا کر کے پاکستانی علاقے میں لے گئے ہیں اور ان کے بقول اگر اہلکاروں کی بازیابی کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو ایرانی فورسز پاکستانی علاقے میں کارروائی کے لیے داخل ہوسکتی ہیں۔
پاکستان نے ان بیانات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایرانی فورسز کو اس کے علاقے میں کارروائی کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
ماضی میں بھی دونوں ملکوں کی طرف سے ایک دوسرے پر سرحدی خالف ورزیوں کے الزامات سامنے آتے رہے ہیں۔
تاہم پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان دیرینہ دوستانہ تعلقات کسی ایک واقعے سے متاثر ہونے کا خدشہ نہیں اور دونوں ملکوں ایسے معاملات کو مل بیٹھ کر حل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔