پاکستان اور بھارت کے درمیان آبی تنازع سے متعلق واشنگٹن میں ہونے والا دو روزہ اجلاس بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گیا لیکن دونوں کے مابین پانی کی تقسیم کا سندھ طاس معاہدہ کروانے والے عالمی بینک نے یقین دلایا ہے کہ اختلافات کو دور کرنے کے لیے مل کر کام جاری رکھا جائے گا۔
گزشتہ روز عالمی بینک کے صدر دفتر میں اختتام پذیر ہونے والے اجلاس کے بعد ورلڈ بینک نے ایک بیان میں کہا کہ گو کہ بات چیت کے اس دور کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا لیکن عالمی بینک پاکستان اور بھارت کے ساتھ مل کر متنازع امور کو معاہدے کے ضابطہ کار میں رہتے ہوئے بطریق احسن حل کرنے کے لیے اپنا کردار جاری رکھے گا۔
1960ء میں طے پانے والے معاہدے کے تحت پاکستان کو بھارت کی طرف سے دریائے چناب اور جہلم پر بنائے جانے والے دو بجلی گھروں پر اعتراض ہے جو اس کے بقول اس کے حصے کے پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ کا سبب بن کر پاکستان میں خشک سالی کا باعث بن سکتے ہیں۔
لیکن بھارت ان تحفظات کو مسترد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ معاہدے کے تحت اپنے حصے کے پانی کو استعمال میں لا رہا ہے۔
اس معاہدے کے تحت مشرقی دریاؤں راوی، ستلج اور بیاس کے پانیوں پر پہلا حق بھارت جب کہ مغربی دریاؤں سندھ، جہلم اور چناب کے 80 فیصد پانی پر پاکستان کا حق ہے۔
پاکستان میں ماہرین یہ کہتے آئے ہیں کہ ملک میں پانی کے نئے ذخائر نہ بنائے جانے کی وجہ سے ہر سال کثیر مقدار میں پانی ضائع ہو جاتا ہے اور اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ پاکستان اس بابت سنجیدگی سے توجہ دے۔
پانی اور توانائی کے امور کے تجزیہ کار ارشد عباسی کہتے ہیں کہ سندھ طاس معاہدہ پاکستان کے لیے بہت اہم ہے جسے ہر صورت برقرار رکھنے کی ضرورت ہے لیکن ان کے بقول اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو اپنے ہاں پانی کے نئے ذخائر کی تعمیر بھی کرنی چاہیے جیسے کہ بھارت اور خطے کے دیگر ملکوں نے اپنے ہاں کی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اس بات پر غور کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ سندھ طاس معاہدے سے پاکستان کو جو پانی حاصل ہو رہا ہے اس میں سے کتنا پانی محفوظ کیا جا رہا ہے اور کتنا فعال طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔
"ہمارے پانی کے ذخائر کیتے ہیں کیا ہم اس پر کام کر رہے ہیں، اس پر کام نہیں ہو رہا۔ ہمیں اپنی مینیجمنٹ اپنی استعداد اور استعمال کو مد نظر رکھنا چاہیے لیکن ہم اس تنازع میں پھنسے ہوئے ہیں کہ ڈیم بننے چاہیئں یا نہیں 30 سال اسی میں چلے گئے۔ سندھ طاس معاہدہ نہ ہوتا تو پانی کا کوئی ذخیرہ ہی نہ بنتا۔"
ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے اس عرصے میں چار ہزار جب کہ چین نے 24 ہزار سے زائد چھوٹے بڑے ڈیمز بنائے ہیں۔
ارشد عباسی کہتے ہیں کہ پاکستان کو سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت کے ڈیمز پر تکنیکی بنیادوں پر اعتراض اٹھانے کی بجائے دیگر ایسے امور کو اجاگر کرنا چاہیے جس سے عالمی سطح پر اس کا نقطہ نظر واضح ہو سکے۔