بھارت کے قومی نشریاتی ادارے آل انڈیا ریڈیو نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی دو تاریخی تقاریر کی ریکارڈنگ ریڈیو پاکستان کو فراہم کر دی ہیں۔
یہ تقاریر پاکستان کے ریکارڈ میں نہیں تھیں اور ان کے حصول کے لیے اس نے بھارت سے درخواست کر رکھی تھی۔
ان میں سے ایک تقریر 3 جون 1947ء کو دہلی میں کی گئی جس میں قائد اعظم نے شمال مغربی سرحدی صوبے (موجودہ خیبر پختونخواہ) کے پاکستان یا بھارت میں شمولیت کے منصوبے پر ریفرنڈم پر رد عمل کا اظہار کیا۔
دوسری تقریر 11 اگست 1947ء کو کراچی میں پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے خطاب پر مبنی ہے۔
ریڈیو پاکستان کی ڈائریکٹر جنرل ثمینہ پرویز نے جمعرات کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ سارک تنظیم کے ممبر ممالک معلومات کے تبادلے پر کام کر ر ہے ہیں۔
’’سارک کے حوالے سے ایک میٹنگ ہوئی تھی ایک ڈیڑھ سال پہلے اسلام آباد میں۔ اس میں ہماری وزارت اطلاعات نے ان (بھارت) کی وزارت اطلاعات کے ساتھ یہ نکتہ اٹھایا تھا کہ ریڈیو پاکستان کے جو پرانے اثاثے ہیں وہ ہمیں مل جائیں تو اس پر انھوں نےاتفاق کیا تھا۔‘‘
1947ء میں برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان اور بھارت معرض وجود میں آئے تھے اور روز اول ہی سے دونوں ملکوں کے درمیان بعض معاملات پر حالات کشیدہ صورتحال اختیار کرتے رہے ہیں۔
حالیہ ہفتوں میں دونوں ملکوں کے درمیان متنازع علاقے کشمیر کو تقسیم کرنے والی حد بندی لائن پر فائرنگ کے واقعات دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان تناؤ کا سبب بنے ہیں۔
لیکن پاکستان کی نو منتخب حکومت یہ کہہ چکی ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ اچھے ہمسایوں جیسے تعلقات استوار کرنے کی خواہاں ہے۔ اس ضمن میں وزیراعظم نواز شریف کی حکومت بھارت کے ساتھ غیر رسمی سفارتی رابطوں میں بھی مصروف ہے۔
موجودہ صورتحال کے تناظر میں بھارت کی طرف سے پاکستان کو فراہم کی جانے والی قائد اعظم کی تاریخی تقاریر دونوں ملکوں کے درمیان باہمی روابط میں خوشگوار تاثر پیدا کرنے کا ذریعہ ثابت ہو سکتی ہیں۔
یہ تقاریر پاکستان کے ریکارڈ میں نہیں تھیں اور ان کے حصول کے لیے اس نے بھارت سے درخواست کر رکھی تھی۔
ان میں سے ایک تقریر 3 جون 1947ء کو دہلی میں کی گئی جس میں قائد اعظم نے شمال مغربی سرحدی صوبے (موجودہ خیبر پختونخواہ) کے پاکستان یا بھارت میں شمولیت کے منصوبے پر ریفرنڈم پر رد عمل کا اظہار کیا۔
دوسری تقریر 11 اگست 1947ء کو کراچی میں پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے خطاب پر مبنی ہے۔
ریڈیو پاکستان کی ڈائریکٹر جنرل ثمینہ پرویز نے جمعرات کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ سارک تنظیم کے ممبر ممالک معلومات کے تبادلے پر کام کر ر ہے ہیں۔
’’سارک کے حوالے سے ایک میٹنگ ہوئی تھی ایک ڈیڑھ سال پہلے اسلام آباد میں۔ اس میں ہماری وزارت اطلاعات نے ان (بھارت) کی وزارت اطلاعات کے ساتھ یہ نکتہ اٹھایا تھا کہ ریڈیو پاکستان کے جو پرانے اثاثے ہیں وہ ہمیں مل جائیں تو اس پر انھوں نےاتفاق کیا تھا۔‘‘
1947ء میں برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان اور بھارت معرض وجود میں آئے تھے اور روز اول ہی سے دونوں ملکوں کے درمیان بعض معاملات پر حالات کشیدہ صورتحال اختیار کرتے رہے ہیں۔
حالیہ ہفتوں میں دونوں ملکوں کے درمیان متنازع علاقے کشمیر کو تقسیم کرنے والی حد بندی لائن پر فائرنگ کے واقعات دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان تناؤ کا سبب بنے ہیں۔
لیکن پاکستان کی نو منتخب حکومت یہ کہہ چکی ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ اچھے ہمسایوں جیسے تعلقات استوار کرنے کی خواہاں ہے۔ اس ضمن میں وزیراعظم نواز شریف کی حکومت بھارت کے ساتھ غیر رسمی سفارتی رابطوں میں بھی مصروف ہے۔
موجودہ صورتحال کے تناظر میں بھارت کی طرف سے پاکستان کو فراہم کی جانے والی قائد اعظم کی تاریخی تقاریر دونوں ملکوں کے درمیان باہمی روابط میں خوشگوار تاثر پیدا کرنے کا ذریعہ ثابت ہو سکتی ہیں۔