رسائی کے لنکس

پاکستان کے 40 فی صد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں: سروے


پشاور کے ایک خیراتی مرکز میں بچے اپنے پیالوں لیے خوراک ملنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ 13 مارچ 2018
پشاور کے ایک خیراتی مرکز میں بچے اپنے پیالوں لیے خوراک ملنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ 13 مارچ 2018

پاکستان میں غذائی سروے کی رپورٹ پیش کر دی گئی ہے جس کے مطابق ملک میں ہر 10 میں سے 4 بچے غذائی کمی کا شکار ہیں۔ ہر تیسرے بچے کا وزن نارمل سے کم ہے۔ جب کہ سب سے زیادہ غذائی کمی بلوچستان اور فاٹا میں ہے۔

یونیسف اور وزارت قومی صحت کے زیر اہتمام ملک گیر نیوٹریشن سروے رپورٹ 2018-19 جاری کر دی گئی ہے۔

سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر 10 میں سے 4 بچے غذائی کمی کا شکار ہیں۔ غذائی کمی میں مبتلا بچوں کی تعداد 40 اعشاریہ دو فی صد ہے جن میں لڑکوں کی تعداد زیادہ ہے۔

ملک میں پانچ سال سے کم 41 فی صد لڑکے غذائی کمی کا شکار ہیں جب کہ پانچ سال سے کم عمر 39 اعشاریہ 4 فی صد لڑکیاں غذائی کمی اور 29 فی صد بچے وزن کی کمی کا شکار ہیں۔ پاکستان میں ہر تیسرے بچے کا وزن نارمل سے کم ہے۔

قومی ادارہ صحت کے ڈاکٹر بشیر اچکزئی کہتے ہیں کہ اس سروے کی مدد سے آئندہ کی منصوبہ بندی میں مدد ملے گی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان میں ساڑھے 9 فی صد بچوں کا وزن زیادہ ہے۔گزشتہ سات برسوں کے دوران موٹاپے کی جانب مائل بچوں کی تعداد دگنی ہو گئی ہے۔

سال 2011 میں فربہ بچوں کی شرح 5 فی صد تھی جب کہ 2018 میں یہ تعداد بڑھ کر ساڑھے 9 فی صد ہو گئی۔

پاکستان میں 50 فی صد لڑکیاں خون کی شدید کمی کا شکار ہیں۔

سروے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں تقریباً ساڑھے 48 فی صد بچوں کو ماں کا دودھ دیا جاتا ہے۔ ماں کا دودھ پلانے کا سب سے زیادہ رجحان خیبر پختونخواہ میں ہے جو 60 اعشاریہ 8 فی صد ہے۔

ملک کی لگ بھگ 37 فی آبادی کو غذائی قلت کا سامنا ہے۔ بلوچستان میں یہ شرح 50 فی صد اور فاٹا میں ساڑھے 54 فی صد سے زیادہ ہے۔

نیوٹریشن کے ایک ماہر ڈاکٹر مسعود خواجہ کہتے ہیں کہ یہ صورت حال کافی تشویش ناک ہے اور اس سلسلے میں ملکی سطح پر ایک موثر پروگرام تیار کرنے کی ضرورت ہے۔

غذائی کمی کے شکار بچوں میں مختلف امراض کے خلاف مدافعت میں بھی کمی آ جاتی ہے، جس کی وجہ سے پاکستان میں کئی امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں۔

نیشنل نیوٹریشن سروے کے مطابق غذائی قلت پاکستان میں بچوں کی نشوونما پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے اور 5 سال تک کی عمروں کے تقربیاً 40 فی صد بچوں کے قد چھوٹے رہ گئے ہیں۔

XS
SM
MD
LG