پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں سیلابی ریلہ تیزی اور شدت کے ساتھ جنوبی اضلاع سے گزر رہا ہے اور یہاں دریا کے کنارے آباد لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیے جانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
اتوار کو فوج کی مدد سے مظفر گڑھ کے قریب دریائے چناب کے شیر شاہ بند میں شگاف ڈالے گئے جس سے درجنوں دیہات زیر آب آگئے۔
علاقے سے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے لیے فوج اور دیگر متعلقہ ادارے امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
اتوار ہی کو مظفر گڑھ کے قریب ایک کشی سیلابی پانی میں ڈوب گئی۔ اس پر 24 سے زائد افراد سوار تھے اور ان کے بارے میں بتایا جارہا تھا کہ یہ شادی کی ایک تقریب کے لیے ایک قریبی علاقے کی طرف جارہے تھے کہ سیلابی ریلے کا شکار ہوگئے۔
امدادی کارکنوں نے اتوار کی شام تک تقریباً 12 افراد کی لاشیں نکال لی تھیں جب کہ پانچ کو زندہ بچا لیا گیا تھا اور دیگر کی تلاش جاری تھی۔
سیلابی ریلے میں ڈوبتے ہوئے افراد بچاتے ہوئے فوج کا ایک اہلکار بھی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے کے مطابق سیلاب سے اب تک 280 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ تقریباً دو لاکھ 76 ہزار سے زائد افراد کو سیلابی علاقے سے محفوظ مقامات پر منتقل کیا جاچکا ہے۔
متاثرہ علاقوں میں پاکستانی فوج ہیلی کاپٹروں اور کشتیوں کی مدد سے امدادی کارروائیوں میں حصہ لے رہی ہے جب کہ فضا سے متاثرہ علاقوں میں خوراک بھی گرائی جا رہی ہے۔
سیلابی ریلہ پنجند ہیڈورکس میں داخل ہو چکا ہے جہاں حکام کے بقول اونچے درجے کا سیلاب ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں پاکستان کے پانچ دریا آکر ملتے ہیں۔
پاکستان میں مون سون کے موسم میں سیلاب کوئی غیر معمولی بات نہیں لیکن 2010ء کے بعد تقریباً ہر سال ہی تواتر کے ساتھ آنے والے سیلابوں کی وجہ سے نہ صرف سینکڑوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں بلکہ زرعی شعبے کے علاوہ بنیادی ڈھانچے کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ زلزلے کی نسبت سیلاب جیسی قدرتی آفت سے بچنا یا اس سے ہونے والے نقصان کو کم کرنا کا آسان ہے لیکن اس کے لیے ٹھوس اقدامات اور ان پر موثر عملدرآمد ضروری ہے۔
پانی اور توانائی کے امور کے ماہر ارشد عباسی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ سیلاب آنے سے پہلے ہی اگر موثر اقدامات کیے جائیں تو نہ صرف جانی و مالی نقصان سے بچا جاسکتا ہے بلکہ پانی کو محفوظ بنا کر اپنی ضروریات پوری کرنے میں بھی مدد لی جاسکتی ہے۔
"کیا آپ یقین کریں گے کہ کئی دفعہ مرالہ سے نیچے آٹھ دس کلامیڑ تک، کئی جگہوں پر دریائے چناب کی چوڑائی اور پاٹ پانچ کلومیڑ تک ہے لیکن گرمیوں میں اور اکثر اوقات اس کی 20 میٹر تک کے حصے سے ہی پانی گزر رہا ہوتا ہے۔ دریا کی گزر گاہ کی حد بند ی نہ کرنا ہماری سب سے بڑی بنیادی غلطی ہے اس میں کچھ خرچ بھی نہیں ہوتا، آپ نے صرف یہ کہنا ہے کہ آپ نے اس علاقے میں تجاوزات نہیں کرنی ہے اور یہ( زمین) الاٹ نہیں کرنی ہے اس میں (زرعی) فارم بنے ہوئے ہیں اور لوگوں نے حد بندی کے لیے دیواریں کھڑی کی ہوئی ہیں "۔
ماہرین کے مطابق پانی، توانائی اور خوراک کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے اور اگر سیلاب سے نمٹنے کے لیے اب بھی اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والے سالوں میں پاکستان کو توانائی کے علاوہ پانی و خوراک کے بحران کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔