رسائی کے لنکس

سیلاب زدگان میں مریضوں کی تعداد میں اضافہ


اقوام متحدہ نے متنبہ کیا ہے کہ پاکستان میں سیلاب زدگان کی بڑھتی ہوئی تعداد وبائی امراض کا شکار ہو رہی ہے اور متاثرین کی طبی سہولیات تک عدم رسائی ایک بڑا چیلنج ہے۔ حکام کے مطابق سیلاب زدہ علاقوں میں کم از کم دو سو طبی مراکز کوبھی نقصان پہنچا ہے ۔

اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے آغاز سے اب تک ملک بھر میں تقریباً 18 لاکھ متاثرین کو کسی نا کسی شکل میں علاج معالجے کی سہولیات فراہم کی جا چکی ہیں، جس سے ان خدشات کو تقویت ملتی ہے کہ آفت زدہ علاقوں میں مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

عالمی تنظیم کے انسانی امور سے متعلق ادارے او سی ایچ اے کی ترجمان سٹیسی ونسٹن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جن بیماریوں کی تشخیص کی گئی ہے ان میں دست و اسہال، جِلدی امراض اور نظام تنفس کی بیماریاں سر فہرست ہیں۔

اقوام متحدہ نے متنبہ کیا ہے کہ پاکستان میں سیلاب زدگان کی بڑھتی ہوئی تعداد وبائی امراض کا شکار ہو رہی ہے اور متاثرین کی طبی سہولیات تک عدم رسائی ایک بڑا چیلنج ہے۔ حکام کے مطابق سیلاب زدہ علاقوں میں کم از کم دو سو طبی مراکز کوبھی نقصان پہنچا ہے ۔

وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اس انتباہ کی تائید کرتے ہوئے منگل کے روز کہا ہے کہ انسانی مصائب کی بگڑتی ہوئی اس صورتحال میں مختلف بیماریاں پھیلنے کے امکانات میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

ان خدشات سے بہتر طور پر نمٹنے کے لیے ایک مربوط حکمت عملی کی تیاری کے سلسلے میں دارالحکومت اسلام آباد میں منگل کے روز ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیر اعظم گیلانی کا کہنا تھا کہ کوئی حکومت انفرادی طور پر حالیہ صورتحال کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور اس کا سامنا کرنے کے لیے بین الاقوامی اداروں، غیر سرکاری تنظیموں اور مختلف شعبہ جات کو حکومت کے ساتھ مل کر اقدامات کرنا ہوں گے۔

انھوں نے بتایا کہ سیلاب کے پیش نظر ملک بھر میں بنیادی طبی سہولیات فراہم کرنے والی 35 ہزار خواتین کارکنان سمیت بڑی تعداد میں طبی عملہ اپنے مقررہ علاقوں سے منتقل ہو چکا ہے البتہ متاثرہ حصوں میں عارضی ہسپتالوں کے قیام اور موبائل ٹیموں کے ذریعے زیادہ سے زیادہ سیلاب زدگان کو طبی امداد فراہم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

پاکستان میں حلال احمر کی سربراہ سینیٹر نیلوفربختیار کا کہنا ہے کہ متعدد سیلاب زدہ علاقوں میں خواتین معالجوں کی اشد ضرورت ہے کیوں کہ یہاں کی معاشرتی اقدار کے باعث خواتین حتیٰ کہ کم عمربچیاں بھی مرد ڈاکٹروں سے علاج کروانے سے گریز کرتی ہیں۔

واضح رہے کہ سرکاری عہدیداروں کے مطابق سیلاب سے متاثر ہونے والے لگ بھگ دو کروڑ افراد میں تقریباً پانچ لاکھ حاملہ خواتین بھی شامل ہیں جن کو نا صرف معیاری طبی سہولیات تک رسائی حاصل نہیں بلکہ ان کی مطلوبہ غذائی ضروریات بھی پوری نہیں ہو رہی ہیں۔

ملکی تاریخ کے بدترین سیلاب سے اب تک ایک ہزار پانچ سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور اقوام متحدہ کے مطابق ایک بڑی تعداد میں متاثرین کو پینے کا صاف پانی میسر نا ہونے اور صفائی ستھرائی کی ناقص صورتحال کی وجہ سے پھیلنے والی بیماریوں سے اموات کی نئی لہر شروع ہو سکتی ہے۔

XS
SM
MD
LG