اسلام آباد —
سکیورٹی حکام کے مطابق منگل کی صبح شمالی و جنوبی وزیرستان کے سرحدی علاقے شوال میں مشتبہ شدت پسندوں کے متعدد ٹھکانوں کو جیٹ طیاروں کی مدد سے نشانہ بنایا گیا جس میں کم از کم 30 عسکریت پسندوں کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔
ایک ہفتے کے دوران سکیورٹی فورسز کی طرف سے لڑاکا طیاروں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں سے شمالی وزیرستان، خیبر ایجنسی اور بنوں کے علاقوں میں مشتبہ شدت پسندوں کو نشانہ بنایا جا چکا ہے اور ان کارروائیوں میں غیر ملکی عسکریت پسندوں سمیت 80 سے زائد جنگجو ہلاک ہو چکے ہیں۔
قبائلی علاقوں میں ذرائع ابلاغ کی رسائی نہ ہونے کی وجہ سے یہاں ہونے والے جانی و مالی نقصانات کی آزاد ذرائع سے تصدیق تقریباً ناممکن ہے۔
رواں ماہ شدت پسندوں کی طرف سے سکیورٹی فورسز پر ہونے والے جان لیوا حملوں کے بعد حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل تعطل کا شکار ہو گیا تھا جس کے بعد گزشتہ ہفتے سکیورٹی فورسز نے وقفے وقفے سے یہ کارروائیاں شروع کیں۔
افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں نے محفوظ پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں جہاں سے وہ ملک میں دہشت گردانہ کارروائیاں کرتے ہیں۔
ادھر شمالی وزیرستان میں لڑائی کے خدشے کے پیش نظر متعدد خاندان نقل مکانی کر چکے ہیں جب کہ اطلاعات کے مطابق یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
شمالی وزیرستان کے علاقے میرعلی سے تعلق رکھنے والے احسان اللہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مقامی لوگ سیکورٹی فورسز کی شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کی وجہ سے گھر بار چھوڑ کر خیبر پختونخواہ کے مختلف علاقوں میں منتقل ہو رہے ہیں جہاں انھیں رہائش سمیت دیگر ضروریات زندگی کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔
’’پاکستانی فوج بمباری کرتی ہے، لوگوں میں شدید خوف ہے، نہ تو پولیٹیکل انتظامیہ کچھ بتاتی ہے اور کوئی معلومات نہیں دیتا۔ اس لیے سینکڑوں لوگ بنوں ، ڈیرہ اسماعیل خان، کوہاٹ اور پشاور منتقل ہو گئے ہیں‘‘۔
گزشتہ ہفتے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں خیبر پختونخواہ کے وزیر صحت شوکت یوسفزئی کا کہنا تھا کہ ان کے صوبے میں پہلے ہی لاکھوں افغان پناہ گزین اور اندرون ملک بے گھر ہونے والے دیگر افراد موجود ہیں اور اگر مزید لوگ نقل مکانی کرتے ہیں تو انتظامیہ کی مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ حکومت ایسے افراد کی معاونت کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گی۔
ماضی میں باجوڑ اور جنوبی وزیرستان کے علاوہ سوات و مالاکنڈ میں فوجی کارروائیوں کے دوران بھی ہزاروں افراد نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔ ان میں سے اکثر اپنے علاقوں کو واپس جا چکے ہیں لیکن اب بھی ایک بڑی تعداد خیموں اور عارضی پناہ گاہوں میں مقیم ہے۔
جنوبی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے محسود قبائل کے بیشتر افراد اپنے علاقوں میں واپسی کے منتظر ہیں۔ ان افراد نے اسلام آباد میں ایک احتجاجی مظاہرہ بھی کیا جس میں انھوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کی بحفاظت واپسی کو یقینی بنانے اور جنوبی وزیرستان میں ہونے والے ان کے مالی نقصانات کا ازالہ کیا جائے۔
ایک ہفتے کے دوران سکیورٹی فورسز کی طرف سے لڑاکا طیاروں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں سے شمالی وزیرستان، خیبر ایجنسی اور بنوں کے علاقوں میں مشتبہ شدت پسندوں کو نشانہ بنایا جا چکا ہے اور ان کارروائیوں میں غیر ملکی عسکریت پسندوں سمیت 80 سے زائد جنگجو ہلاک ہو چکے ہیں۔
قبائلی علاقوں میں ذرائع ابلاغ کی رسائی نہ ہونے کی وجہ سے یہاں ہونے والے جانی و مالی نقصانات کی آزاد ذرائع سے تصدیق تقریباً ناممکن ہے۔
رواں ماہ شدت پسندوں کی طرف سے سکیورٹی فورسز پر ہونے والے جان لیوا حملوں کے بعد حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل تعطل کا شکار ہو گیا تھا جس کے بعد گزشتہ ہفتے سکیورٹی فورسز نے وقفے وقفے سے یہ کارروائیاں شروع کیں۔
افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں نے محفوظ پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں جہاں سے وہ ملک میں دہشت گردانہ کارروائیاں کرتے ہیں۔
ادھر شمالی وزیرستان میں لڑائی کے خدشے کے پیش نظر متعدد خاندان نقل مکانی کر چکے ہیں جب کہ اطلاعات کے مطابق یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
شمالی وزیرستان کے علاقے میرعلی سے تعلق رکھنے والے احسان اللہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مقامی لوگ سیکورٹی فورسز کی شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کی وجہ سے گھر بار چھوڑ کر خیبر پختونخواہ کے مختلف علاقوں میں منتقل ہو رہے ہیں جہاں انھیں رہائش سمیت دیگر ضروریات زندگی کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔
’’پاکستانی فوج بمباری کرتی ہے، لوگوں میں شدید خوف ہے، نہ تو پولیٹیکل انتظامیہ کچھ بتاتی ہے اور کوئی معلومات نہیں دیتا۔ اس لیے سینکڑوں لوگ بنوں ، ڈیرہ اسماعیل خان، کوہاٹ اور پشاور منتقل ہو گئے ہیں‘‘۔
گزشتہ ہفتے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں خیبر پختونخواہ کے وزیر صحت شوکت یوسفزئی کا کہنا تھا کہ ان کے صوبے میں پہلے ہی لاکھوں افغان پناہ گزین اور اندرون ملک بے گھر ہونے والے دیگر افراد موجود ہیں اور اگر مزید لوگ نقل مکانی کرتے ہیں تو انتظامیہ کی مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ حکومت ایسے افراد کی معاونت کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گی۔
ماضی میں باجوڑ اور جنوبی وزیرستان کے علاوہ سوات و مالاکنڈ میں فوجی کارروائیوں کے دوران بھی ہزاروں افراد نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔ ان میں سے اکثر اپنے علاقوں کو واپس جا چکے ہیں لیکن اب بھی ایک بڑی تعداد خیموں اور عارضی پناہ گاہوں میں مقیم ہے۔
جنوبی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے محسود قبائل کے بیشتر افراد اپنے علاقوں میں واپسی کے منتظر ہیں۔ ان افراد نے اسلام آباد میں ایک احتجاجی مظاہرہ بھی کیا جس میں انھوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کی بحفاظت واپسی کو یقینی بنانے اور جنوبی وزیرستان میں ہونے والے ان کے مالی نقصانات کا ازالہ کیا جائے۔