دہشت گردی کے مالی وسائل کو مسدود کرنے کے ضمن میں پاکستان کی کوششوں کا جائزہ لینے کے لیے 'فنانشل ایکشن ٹاسک فورس' (ایف اے ٹی ایف) کا اجلاس آئندہ ماہ ہونے والا ہے، اور اگر اجلاس کے ارکان پاکستانی اقدام پر مطمئن نہ ہوئے تو اس کا نام ان ملکوں کی فہرست میں شامل کر دیا جائے گا جو دہشت گردی کے مالی وسائل اور رقوم کی غیر قانونی منتقلی کی روک تھام کے لیے مؤثر کارروائی نہیں کر رہے۔
فروری میں ’ایف اے ٹی ایف‘ کے ہونے والے اجلاس میں پاکستان کو تین ماہ کا وقت دیا تھا جس کے بعد حکومت کی طرف سے بعض اقدام بشمول قانون سازی بھی دیکھنے میں آئی اور حکومتی عہدیدار اس ضمن میں خاصے پرامید دکھائی دیتے ہیں۔
لیکن حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کے ایک حالیہ متنازع بیان سے حزب مخالف کی طرف سے ایسی تشویش اور تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ یہ بیان جون میں ٹاسک فورس کے اجلاس میں پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کر سکتا ہے۔
نواز شریف نے ملک میں غیر ریاستی عناصر کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ سوال اٹھایا تھا کہ کیا ایسے عناصر کو اجازت دی جانی چاہیے کہ وہ سرحد پار ممبئی جا کر ڈیڑھ سو لوگوں کو ہلاک کر دیں۔
حزب مخالف اس بیان کو بھارت کے مؤقف کی تائید قرار دیتے ہوئے نواز شریف کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے جب کہ حکومتی عہدیداران کا استدلال ہے کہ وہ اپوزیشن بھارتی ذرائع ابلاغ میں پیش کیے جانے والے تاثر کو لے کر چل رہی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سیاسی صورتحال پاکستانی موقف کمزور ہو سکتا ہے، لیکن یہ شاید ’ایف اے ٹی ایف‘ میں پاکستان کے لیے زیادہ مشکلات پیدا نہ کر سکے۔
سینیئر تجزیہ کار اور بین الاقوامی امور کی ماہر ڈاکٹر ہما بقائی کہتی ہیں کہ نواز شریف کے بیان سے پاکستان کے تشخص کو نقصان ہوا ہے اور بھارت اسے بین الاقوامی برادری میں سفارتی سطح پر ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کرے گا۔ لیکن ان کے خیال میں یہ پاکستان کے لیے کسی ٹھوس نقصان کا باعث شاید نہ بنے۔
بدھ کو ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے سفارتی سطح پر سرگرمیوں کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔
بقول اُن کے، "فروری کے بعد حکومت نے کچھ اقدام کیے تنظیموں پر پابندی لگائی میرا خیال ہے کہ تشخص کو تو نقصان پہنچا ہے۔۔۔بھارت اس کو استعمال کر رہا ہے اس کے ہاتھ میں آپ نے ہتھیار دے دیا وہ اس کو استعمال کرنے کی کوشش کرے گا، ابھی بھی وقت ہے ہمیں اپنی متحرک سفارتکاری کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے جو تشخص خراب ہوا اس کو جتنی جلدی بہتر کیا جا سکے وہ کیا جائے۔"
موجودہ حکومت رواں ماہ کے اختتام پر اپنی آئینی مدت مکمل کر رہی ہے اور تمام سیاسی جماعتیں آئندہ عام انتخابات کے تناظر میں اپنی اپنی سیاسی سرگرمیاں پہلے ہی تیز کر چکی ہیں جس میں مخالفین پر الزام تراشیوں کا رنگ غالب ہے۔
سلامتی و دفاعی امور کے سینیئر تجزیہ کار اکرام سہگل کے خیال میں نواز شریف کے بیان پر سیاسی حلقوں کی انگشت نمائی اپنی جگہ لیکن بین الاقوامی سطح پر ملک کے لیے اس کے کسی بڑے نقصان کا اندشہ نہیں ہے۔
’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ایف اے ٹی ایف‘ کی طرف سے خطرہ تو موجود رہے گا، لیکن انھیں امید ہے کہ اس مرتبہ پاکستان بہتر سفارتکاری کے ذریعے اپنے دوست ممالک سے اپنے موقف کی حمایت حاصل کر لے گا۔
اکرام سہگل نے کہا کہ "ہمارا مسئلہ یہ تھا کہ ہمارے سفارتکار اُس وقت پوری طرح تیار نہیں تھے، اِس وقت وہ تیار بھی ہیں انھوں نے لابنگ بھی کی ہے، میرا خیال ہے کہ ہمارے دوست ممالک ضرور حمایت کریں گے کہ ہم نے کافی اقدام کیے ہیں دہشت گردی کے مالی وسائل روکنے کے لیے۔"
اس سے قبل پاکستان 2012ء سے 2015ء تک ’ایف اے ٹی ایف‘ کی اس فہرست میں شامل رہ چکا ہے اور اکرام سہگل کے بقول اگر پاکستانی موقف کو تائید نہیں ملتی تو بین الاقوامی سطح پر مالیاتی شعبے میں ملک کو دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور ملک کی بدنامی ہوتی ہے، لیکن یہ کہنا کہ اس سے کوئی آسمان ٹوٹ پڑے گا یہ مناسب نہیں ہوگا۔