اسلام آباد —
پاکستان میں توانائی کا بحران حالیہ برسوں کے دوران شدت اختیار کرتا چلا گیا ہے اور موجودہ حکومت اس سے نمٹنے کے اقدامات کو اپنی ترجیحات قرار دیتی آرہی ہے۔
توانائی کے شعبے کے لیے وزیراعظم نوازشریف کے مشیر مصدق ملک نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لیے دیگر حکومتی کوششوں کے علاوہ نئے قوانین متعارف کروانے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے جن کا مقصد بجلی کے ضیاع اور اس کی چوری پر قابو پانا ہے۔
’’گھروں کی تعمیر کے قوانین میں اس بات پر غور نہیں کیا جاتا کہ دروازوں کو کھڑکیوں سے بجلی کا ضیاع تو نہیں ہورہا، تو نئے قوانین سے ہم اس پر توجہ دے کر 20 سے 30 فیصد ضائع ہونے والی بجلی کو روک سکیں گے اور پھر مشینری وغیر جو ٹیوب ویل یا دیگر صنعتوں میں استعمال ہوتی ہے ان سے متعلق بھی آلات کے بارے میں قوانین آئندہ سال لائے جارہے ہیں۔‘‘
موجودہ حکومت نے رواں سال جون میں اقتدار میں آنے کے بعد بجلی پیدا کرنے والی نجی پیداواری کمپنیوں کو گردشی قرضوں کی مد میں اربوں روپے ادا کئے جس سے عوام کو طویل لوڈشیڈنگ سے عارضی طور پر نجات ملی۔
عید اور ہفتہ وار تعطیل کو ملا چھ چھٹیوں کے بعد پیر سے سرکاری و نجی ادارے معمول کے مطابق اپنا کام شروع کریں گے اور مصدق ملک کے مطابق پیر سے دوبارہ اوسطً چھ سے سات گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ شروع ہو جائے گی۔
حکومت یہ کہہ چکی ہے کہ توانائی خصوصاً بجلی کے بحران پر قابو پانے کی لیے کی جانے والی کوششوں کا نتیجہ تین سال کے بعد سامنے آئے گا لیکن وزیراعظم کے مشیر مصدق ملک کا کہنا تھا اس دوران عوام کو کسی قدر سہولت فراہم کرنے کے لیے بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
’’بہت سے بجلی پیدا کرنے والے کارخانے جو مرمت نہ ہونے کی وجہ سے بند پڑتے ان کے بحال ہونے سے تقریباً 1400 میگا واٹ بجلی مل سکے گی آئندہ چھ سے آٹھ مہینوں میں، پھر جو نندی پور کا منصوبہ ہے اس پر بہت تیزی سے کام ہورہا ہے تو اس سے بھی قلیل مدت میں دوسو سے تین سو میگاواٹ بجلی مل سکے گی۔‘‘
حکومت نے رواں ماہ بجلی کے نرخوں میں بھی اضافہ کیا جس پر حزب مخالف اور عوام کی طرف سے شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا۔ تاہم ملک کے صدر ممنون حسین نے بھی بظاہر حکومتی پالیسیوں دفاع کرتے ہوئے عوام کو تحمل سے کام لینے کا مشورہ دیا ہے۔
اتوار کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے جو حکومتی پالیسیاں ان کی نظر سے گزری ہیں ان سے وہ مطمئین ہیں اور حکومت آئندہ تین، ساڑھے تین سالوں میں حکومت بجلی کی قیمت میں کمی کرسکے گی۔
وزیراعظم نواز شریف سمیت حکومتی عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ ملک کو درپیش بحرانوں اور چیلنجز سے نمٹنے کے لیے انھیں مشکل فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں اور اس پر انھیں عوام کی مسلسل حمایت درکار ہے۔
توانائی کے شعبے کے لیے وزیراعظم نوازشریف کے مشیر مصدق ملک نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لیے دیگر حکومتی کوششوں کے علاوہ نئے قوانین متعارف کروانے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے جن کا مقصد بجلی کے ضیاع اور اس کی چوری پر قابو پانا ہے۔
’’گھروں کی تعمیر کے قوانین میں اس بات پر غور نہیں کیا جاتا کہ دروازوں کو کھڑکیوں سے بجلی کا ضیاع تو نہیں ہورہا، تو نئے قوانین سے ہم اس پر توجہ دے کر 20 سے 30 فیصد ضائع ہونے والی بجلی کو روک سکیں گے اور پھر مشینری وغیر جو ٹیوب ویل یا دیگر صنعتوں میں استعمال ہوتی ہے ان سے متعلق بھی آلات کے بارے میں قوانین آئندہ سال لائے جارہے ہیں۔‘‘
موجودہ حکومت نے رواں سال جون میں اقتدار میں آنے کے بعد بجلی پیدا کرنے والی نجی پیداواری کمپنیوں کو گردشی قرضوں کی مد میں اربوں روپے ادا کئے جس سے عوام کو طویل لوڈشیڈنگ سے عارضی طور پر نجات ملی۔
عید اور ہفتہ وار تعطیل کو ملا چھ چھٹیوں کے بعد پیر سے سرکاری و نجی ادارے معمول کے مطابق اپنا کام شروع کریں گے اور مصدق ملک کے مطابق پیر سے دوبارہ اوسطً چھ سے سات گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ شروع ہو جائے گی۔
حکومت یہ کہہ چکی ہے کہ توانائی خصوصاً بجلی کے بحران پر قابو پانے کی لیے کی جانے والی کوششوں کا نتیجہ تین سال کے بعد سامنے آئے گا لیکن وزیراعظم کے مشیر مصدق ملک کا کہنا تھا اس دوران عوام کو کسی قدر سہولت فراہم کرنے کے لیے بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
’’بہت سے بجلی پیدا کرنے والے کارخانے جو مرمت نہ ہونے کی وجہ سے بند پڑتے ان کے بحال ہونے سے تقریباً 1400 میگا واٹ بجلی مل سکے گی آئندہ چھ سے آٹھ مہینوں میں، پھر جو نندی پور کا منصوبہ ہے اس پر بہت تیزی سے کام ہورہا ہے تو اس سے بھی قلیل مدت میں دوسو سے تین سو میگاواٹ بجلی مل سکے گی۔‘‘
حکومت نے رواں ماہ بجلی کے نرخوں میں بھی اضافہ کیا جس پر حزب مخالف اور عوام کی طرف سے شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا۔ تاہم ملک کے صدر ممنون حسین نے بھی بظاہر حکومتی پالیسیوں دفاع کرتے ہوئے عوام کو تحمل سے کام لینے کا مشورہ دیا ہے۔
اتوار کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے جو حکومتی پالیسیاں ان کی نظر سے گزری ہیں ان سے وہ مطمئین ہیں اور حکومت آئندہ تین، ساڑھے تین سالوں میں حکومت بجلی کی قیمت میں کمی کرسکے گی۔
وزیراعظم نواز شریف سمیت حکومتی عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ ملک کو درپیش بحرانوں اور چیلنجز سے نمٹنے کے لیے انھیں مشکل فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں اور اس پر انھیں عوام کی مسلسل حمایت درکار ہے۔