اسلام آباد —
پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ میں شدت پسندوں کی طرف سے حملوں کی دھمکیوں کے باوجود لوگوں کی بڑی تعداد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے پولنگ اسٹیشنوں کا رخ کیا۔
قومی اسمبلی کے حلقوں کا آغاز بھی اسی صوبے سے ہوتا ہے جو کہ پشاور میں حلقہ این اے ون ہے جہاں عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما اور سابق وفاقی وزیر غلام احمد بلور اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے۔
سات قبائلی علاقوں پر مشتمل فاٹا میں کرم ایجنسی سے قومی اسمبلی کے ایک حلقے این اے 38 میں ہفتہ کو ہونے والے انتخاب پولیٹکل ایجنٹ کی درخواست پر ملتوی کردیا گیا تھا اور اس کی وجہ سلامتی کے خدشات بتائے گئے ہیں۔
پشاور کے ایک پولنگ اسٹیشن پر موجود ووٹروں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس بار لوگوں کی بڑی تعداد کا انتخابی عمل میں حصہ لینا خوش آئند ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام میں اپنے ملک کے مسائل اور ان کے حل کے لیے شعور بیدار ہورہا ہے۔
ہفتہ کو انتخابات کے موقع پر دہشت گردی کے واقعات بھی رونما ہوئے۔ پشاور میں چارسدہ روڈ پر ایک پولنگ اسٹیشن کے قریب ہونے والے بم دھماکے میں 12 افراد زخمی ہو گئے جب کہ کوہاٹ روڈ پر بھی ایک بم دھماکا ہوا لیکن اس میں کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ملک میں پولنگ کے روز پیش آنے والے مختلف واقعات کے باوجود مجموعی صورتحال پرامن رہی جو کہ ایک حوصلہ افزا بات ہے۔
سیکرٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد خان نے ہفتہ کی شام صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’ خیبر پختونخواہ اور فاٹا میں بھی بڑے اطمینان سے لوگوں نے ووٹ ڈالے اور وہاں بھی یہ عمل آرام سے مکمل ہوگیا۔ ہری پور، ایبٹ آباد مانسہرہ میں خود گیا تھا وہاں پولنگ اسٹیشن دیکھے وہاں جو ٹرن آؤٹ تھا لوگوں کا وہ دن بارہ بجے تک 50 سے 60 فیصد تک پہنچ گیا تھا۔‘‘
خیبر پختونخواہ میں مالاکنڈ ڈویژن اور مانسہرہ میں خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں لیکن مجموعی صورتحال انتخابی عمل خوش اسلوبی مکمل ہوا۔
نگراں وفاقی وزیراطلاعات عارف نظامی نے سلامتی کے خدشات کے باوجود لوگوں کی انتخابات میں شرکت کو ایک بڑی کامیابی قرار دیا۔
’’یہ نہیں ہوا کہ انتخابات نہ ہوئے ہوں یہ بات ٹھیک ہے کہ ملک میں امن عامہ کی صورتحال کو خراب تر کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی لیکن اس کے باوجود دیکھیں کہ سسٹم چل رہا ہے اور لوگ الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔‘‘
صوبہ خیبر پختونخواہ میں انتخابی عمل کے دوران دہشت گردوں کے حملوں کے باعث بیشتر سیاسی جماعتوں خصوصاً عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی کو مشکلات کا سامنا رہا۔ لیکن ان دشواریوں کے باوجود تمام جماعتوں نے انتخابی عمل میں بھرپور شرکت کا اعلان کیا تھا اور ہفتہ کو اس کا عملی مظاہرہ دیکھنے میں آیا۔
قومی اسمبلی کے حلقوں کا آغاز بھی اسی صوبے سے ہوتا ہے جو کہ پشاور میں حلقہ این اے ون ہے جہاں عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما اور سابق وفاقی وزیر غلام احمد بلور اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے۔
سات قبائلی علاقوں پر مشتمل فاٹا میں کرم ایجنسی سے قومی اسمبلی کے ایک حلقے این اے 38 میں ہفتہ کو ہونے والے انتخاب پولیٹکل ایجنٹ کی درخواست پر ملتوی کردیا گیا تھا اور اس کی وجہ سلامتی کے خدشات بتائے گئے ہیں۔
پشاور کے ایک پولنگ اسٹیشن پر موجود ووٹروں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس بار لوگوں کی بڑی تعداد کا انتخابی عمل میں حصہ لینا خوش آئند ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام میں اپنے ملک کے مسائل اور ان کے حل کے لیے شعور بیدار ہورہا ہے۔
ہفتہ کو انتخابات کے موقع پر دہشت گردی کے واقعات بھی رونما ہوئے۔ پشاور میں چارسدہ روڈ پر ایک پولنگ اسٹیشن کے قریب ہونے والے بم دھماکے میں 12 افراد زخمی ہو گئے جب کہ کوہاٹ روڈ پر بھی ایک بم دھماکا ہوا لیکن اس میں کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ملک میں پولنگ کے روز پیش آنے والے مختلف واقعات کے باوجود مجموعی صورتحال پرامن رہی جو کہ ایک حوصلہ افزا بات ہے۔
سیکرٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد خان نے ہفتہ کی شام صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’ خیبر پختونخواہ اور فاٹا میں بھی بڑے اطمینان سے لوگوں نے ووٹ ڈالے اور وہاں بھی یہ عمل آرام سے مکمل ہوگیا۔ ہری پور، ایبٹ آباد مانسہرہ میں خود گیا تھا وہاں پولنگ اسٹیشن دیکھے وہاں جو ٹرن آؤٹ تھا لوگوں کا وہ دن بارہ بجے تک 50 سے 60 فیصد تک پہنچ گیا تھا۔‘‘
خیبر پختونخواہ میں مالاکنڈ ڈویژن اور مانسہرہ میں خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں لیکن مجموعی صورتحال انتخابی عمل خوش اسلوبی مکمل ہوا۔
نگراں وفاقی وزیراطلاعات عارف نظامی نے سلامتی کے خدشات کے باوجود لوگوں کی انتخابات میں شرکت کو ایک بڑی کامیابی قرار دیا۔
’’یہ نہیں ہوا کہ انتخابات نہ ہوئے ہوں یہ بات ٹھیک ہے کہ ملک میں امن عامہ کی صورتحال کو خراب تر کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی لیکن اس کے باوجود دیکھیں کہ سسٹم چل رہا ہے اور لوگ الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔‘‘
صوبہ خیبر پختونخواہ میں انتخابی عمل کے دوران دہشت گردوں کے حملوں کے باعث بیشتر سیاسی جماعتوں خصوصاً عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی کو مشکلات کا سامنا رہا۔ لیکن ان دشواریوں کے باوجود تمام جماعتوں نے انتخابی عمل میں بھرپور شرکت کا اعلان کیا تھا اور ہفتہ کو اس کا عملی مظاہرہ دیکھنے میں آیا۔