پاکستان کے نامزد چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم نے متنبہ کیا ہے کہ اگر ملک میں آئندہ انتخابات آزادانہ اور منصفانہ نا ہوئے ’’تو پھر تباہی‘‘ ہو گی۔
نامزدگی کے بعد اسلام آباد میں منگل کو صحافیوں سے پہلی مرتبہ گفتگو کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ جمہوری عمل میں رکاوٹوں کی وجہ سے ملک ترقی نہیں کر سکا ہے۔
فخر الدین جی ابراہیم کا کہنا تھا کہ وقتِ مقررہ پر عام انتخابات کے انعقاد سے ناصرف ملک میں جمہوری نظام کو تقویت ملے گی بلکہ عوام کو کارکردگی کی بنیاد پر اپنے نمائندوں کو منتخب کرنے کا موقع بھی میسر آئے گا۔
’’دو تین الیکشن ہوں گے چھانٹی ہو جائے گی، آج فخر الدین آئے گا وہ نکما ہو جائے گا، آپ آئیں گے اچھے آئیں گے، اس کے بعد اور اچھے آئیں گے۔‘‘
نامزد چیف الیکشن کمشنر نے تجویز دی کہ ملک میں عام انتخابات پانچ سال کی بجائے چار سال بعد منعقد کروائے جائیں۔
فخر الدین جی ابراہیم نے اعتراف کیا کہ اُنھیں ایک مشکل ذمہ داری سونپی جا رہی ہے۔ اُنھوں نے اس موقع پر ذرائع ابلاغ اور سول سوسائٹی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنانے کے لیے وہ بھی اپنا کردار ادا کریں۔
سیاست دانوں کے بیرون ملک اثاثوں سے متعلق ایک سوال پر فخر الدین جی ابراہیم نے ایک تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ تمام شخصیات کو پیسہ واپس لانے کے لیے ایک مرتبہ استثنیٰ دے دینا چاہیئے۔ ’’اگر نہیں لاتے تو 10 سال قید بامشقت سے کم کچھ نہیں۔‘‘
پاکستان کی موجودہ پارلیمان اپنی آئینی مدت کے آخری سال میں ہے جب کہ پیپلز پارٹی کی زیر قیادت حکمران اتحاد نے قبل از وقت انتخابات کا عندیہ بھی دیا ہے۔ مگر ناقدین کے خیال میں اگر ووٹر فہرستوں اور انتخابی عمل سے متعلق پائے جانے والے تحفظات کی موجودگی میں انتخابات ہوئے تو ان کی حیثیت متنازع ہو گی۔
انتخابی عمل پر نظر رکھنے والے غیر سرکاری ادارے، فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن)، نے اپنی تازہ جائزہ رپورٹ میں کہا ہے کہ انتخابی فہرستوں میں ایک کروڑ سے زائد افراد کے ووٹ کا اندراج اُن کی مرضی کے حلقوں میں نہیں کیا گیا ہے، جس سے پولنگ کا عمل پیچیدہ ہونے کا خدشہ ہے۔
ادارے کے ڈائریکٹر پروگرامز رشید چودھری نے بتایا کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب بھی اہل ووٹروں کی بڑی تعداد کا انداج نہیں ہو سکا ہے۔
’’اقتصادی سروے کے مطابق پاکستان میں اس وقت بالغ آبادی 10 کروڑ 40 لاکھ سے زیادہ ہے اور اس وقت فہرستوں میں شامل افراد کی تعداد آٹھ کروڑ 37 لاکھ ہے، تو یہ جو دو کروڑ سے بھی زیادہ افراد کا فرق ہے یہ وہ لوگ ہیں جو اہل ووٹر ہو سکتے ہیں لیکن وہ ووٹر نہیں ہیں۔‘‘
رشید چودھری نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس ابھی وقت ہے کہ وہ دیگر متعلقہ اداروں کے تعاون سے ان نقائص کو دور کر لے تاکہ آئندہ الیکشن مستند انتخابی فہرستیں کی بنیاد پر ہو سکیں۔
نامزدگی کے بعد اسلام آباد میں منگل کو صحافیوں سے پہلی مرتبہ گفتگو کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ جمہوری عمل میں رکاوٹوں کی وجہ سے ملک ترقی نہیں کر سکا ہے۔
فخر الدین جی ابراہیم کا کہنا تھا کہ وقتِ مقررہ پر عام انتخابات کے انعقاد سے ناصرف ملک میں جمہوری نظام کو تقویت ملے گی بلکہ عوام کو کارکردگی کی بنیاد پر اپنے نمائندوں کو منتخب کرنے کا موقع بھی میسر آئے گا۔
’’دو تین الیکشن ہوں گے چھانٹی ہو جائے گی، آج فخر الدین آئے گا وہ نکما ہو جائے گا، آپ آئیں گے اچھے آئیں گے، اس کے بعد اور اچھے آئیں گے۔‘‘
نامزد چیف الیکشن کمشنر نے تجویز دی کہ ملک میں عام انتخابات پانچ سال کی بجائے چار سال بعد منعقد کروائے جائیں۔
فخر الدین جی ابراہیم نے اعتراف کیا کہ اُنھیں ایک مشکل ذمہ داری سونپی جا رہی ہے۔ اُنھوں نے اس موقع پر ذرائع ابلاغ اور سول سوسائٹی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنانے کے لیے وہ بھی اپنا کردار ادا کریں۔
سیاست دانوں کے بیرون ملک اثاثوں سے متعلق ایک سوال پر فخر الدین جی ابراہیم نے ایک تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ تمام شخصیات کو پیسہ واپس لانے کے لیے ایک مرتبہ استثنیٰ دے دینا چاہیئے۔ ’’اگر نہیں لاتے تو 10 سال قید بامشقت سے کم کچھ نہیں۔‘‘
پاکستان کی موجودہ پارلیمان اپنی آئینی مدت کے آخری سال میں ہے جب کہ پیپلز پارٹی کی زیر قیادت حکمران اتحاد نے قبل از وقت انتخابات کا عندیہ بھی دیا ہے۔ مگر ناقدین کے خیال میں اگر ووٹر فہرستوں اور انتخابی عمل سے متعلق پائے جانے والے تحفظات کی موجودگی میں انتخابات ہوئے تو ان کی حیثیت متنازع ہو گی۔
انتخابی عمل پر نظر رکھنے والے غیر سرکاری ادارے، فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن)، نے اپنی تازہ جائزہ رپورٹ میں کہا ہے کہ انتخابی فہرستوں میں ایک کروڑ سے زائد افراد کے ووٹ کا اندراج اُن کی مرضی کے حلقوں میں نہیں کیا گیا ہے، جس سے پولنگ کا عمل پیچیدہ ہونے کا خدشہ ہے۔
ادارے کے ڈائریکٹر پروگرامز رشید چودھری نے بتایا کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب بھی اہل ووٹروں کی بڑی تعداد کا انداج نہیں ہو سکا ہے۔
’’اقتصادی سروے کے مطابق پاکستان میں اس وقت بالغ آبادی 10 کروڑ 40 لاکھ سے زیادہ ہے اور اس وقت فہرستوں میں شامل افراد کی تعداد آٹھ کروڑ 37 لاکھ ہے، تو یہ جو دو کروڑ سے بھی زیادہ افراد کا فرق ہے یہ وہ لوگ ہیں جو اہل ووٹر ہو سکتے ہیں لیکن وہ ووٹر نہیں ہیں۔‘‘
رشید چودھری نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس ابھی وقت ہے کہ وہ دیگر متعلقہ اداروں کے تعاون سے ان نقائص کو دور کر لے تاکہ آئندہ الیکشن مستند انتخابی فہرستیں کی بنیاد پر ہو سکیں۔