گیارہ ستمبر 2001ء کو امریکہ میں شدت پسند تنظیم 'القاعدہ' کی جانب سے کیے جانے والے حملوں میں لگ بھگ تین ہزار افراد مارے گئے تھے۔
ان حملوں کے بعد پاکستان نے بھی واشنگٹن کے ہمراہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں شمولیت اختیار کی اور اس جنگ کی ابتدا سے ہی صفِ اول میں رہا۔
کچھ اس جنگ کا نتیجہ اور کچھ اس عرصے کے دوران مختلف حکومتوں کے ادوار میں اپنائی جانے والی پالیسیوں کا اثر تھا کہ پاکستان خود اس دہشت گردی اور اس سے نمٹنے کی اپنی کوششوں پر تنقید کے نشانے پر آ گیا۔
اگرچہ پاکستان کا یہ موقف رہا ہے کہ گزشتہ 16 برسوں میں اس نے دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کیں لیکن اس کے باوجود وہ مسلسل اس تنقید کی زد میں رہا کہ اب بھی دنیا کے لیے خطرہ تصور کیے جانے والے دہشت گردوں کی پناہ گاہیں اس ملک میں ہیں۔
پاکستان میں تجزیہ کار اس صورت حال کو ملک کی خارجہ پالیسی کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج سمجھتے ہیں۔
وفاقی دارالحکومت کی ایک بڑی سرکاری درس گاہ قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبۂ سیاست و بین الاقوامی امور کے سربراہ ڈاکٹر نذیر حسین کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف اپنی کوششوں اور قربانیوں کو پاکستان بین الاقوامی برداری کے سامنے درست انداز میں پیش نہیں کر سکا۔
’’تشخص کو اجاگر کرنے کے حوالے سے ہماری مینجمنٹ بہت خطرناک حد تک کمزور ہے۔ پاکستان کی جو تصویر ہے وہ اچھے طریق سے باہر (دنیا) تک نہیں جا رہی ہے۔۔۔ اس میں کچھ ہماری پالیسیوں کی دخل اندازی ضرور ہے، کہ ہم اچھے طالبان اور برے طالبان میں تمیز کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ہمیں ایک چیز دیکھنی ہے کہ پاکستان نے کیا کیا ہے، پاکستان نے کتنی قربانیاں دی ہیں، کیسے قربانیاں دیں اُن کو ہم بدقسمتی سے اجاگر نہیں کر سکے۔‘‘
انسٹیٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز اسلام آباد میں امریکہ سے متعلق شعبے کے ڈائریکٹر نجم رفیق کہتے ہیں کہ اب بھی دنیا کے کئی ممالک پاکستان کو دہشت گردوں کا حامی قرار دیتے ہیں جو اُن کے بقول ایک بہت بڑا سفارتی چیلنج ہے۔
’’جہاں تک عسکری فرنٹ کا سوال ہے، میری نظر کے مطابق وہ ایک چھوٹا سا فرنٹ ہے اور ایک محدود علاقائی سطح تک رہتا ہے۔ جہاں تک ڈپلومیٹک فرنٹ کا تعلق ہے تو یہ بہت وسیع اور بڑا پہلو ہے، جس پر پاکستان کو ایک بہت بڑی جنگ لڑنی ہے۔‘‘
اب بظاہر حکومت کو بھی یہ احساس ہو چکا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف محض عسکری کارروائیاں ہی کافی نہیں بلکہ عالمی سطح پر اس تشخص کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے جو کہ اب اس ملک سے جوڑ دیا گیا ہے۔
گزشتہ ہفتے ہی اسلام آباد میں منتخب پاکستانی سفیروں کی کانفرنس کے بعد وزیر خارجہ خواجہ آصف نے بھی کہا کہ ’’ہمیں اس بات کا بڑی شدت سے احساس ہے کہ جو ہمارا تشخص ہے یا دہشت گردی کے خلاف ہماری کو کامیابیاں ہیں، دنیا اُس کو تھوڑا مختلف نظرسے دیکھتی ہے اور ہمیں دنیا کے نقطۂ نظر کو درست کرنا ہے۔‘‘
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان نے عالمی جنگ میں شمولیت کا فیصلہ تو ’نائین الیون‘ کے فوراً بعد ہی کر لیا تھا لیکن اسے، اس جنگ کی پیچیدگیوں کو سمجھنے اور اس کے مطابق سفارتی پالیسی کو ڈھالنے میں بہت وقت لگا، جس سے پاکستان کی مشکلات کم ہونے کی بجائے بڑھتی رہیں۔