پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں آباد ہزارہ برادری ایک عرصے سے مہلک دہشت گرد حملوں کا نشانہ رہی ہے جس میں ان کے سیکڑوں افراد مارے جا چکے ہیں۔
چند سال پہلے ایسے واقعات بھی رونما ہوئے کہ جن سے عالمی برادری کی توجہ خاص طور پر ہزارہ برادری کو درپیش صورتحال کی طرف مبذول ہوئی۔
ایک ہی دہشت گرد حملے میں مرنے والے درجنوں افراد کی لاشوں کو لے کر ہزارہ برادری کے لوگوں نے کئی روز تک شدید سرد موسم میں ایک مرکزی شاہراہ پر دھرنا دیا تو اس کی گونج عالمی میڈیا میں بھی سنی گئی اور ہزارہ برادری کے تحفظ کے لیے آواز زیادہ شدت سے بلند ہونا شروع ہوئی۔
دہشت گردی کے علاوہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے ہدف بنا کر قتل کیے جانے کے واقعات سے متاثرہ اس برادری کی خواتین ذہنی دباؤ کا شکار تو ہیں لیکن یہ عنصر امن و ہم آہنگی کے فروغ اور معاشرے میں عزت و وقار کے ساتھ زندگی گزارنے کے ان کے عزم کو متزلزل نہیں کر سکا۔
طیبہ کا تعلق کوئٹہ میں آباد ہزارہ برادری سے ہے۔ وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مختلف غیر سرکاری تنظیموں سے وابستہ رہیں اور سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی آ رہی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ان کی برادری کے مرد تو شر پسندوں کا نشانہ بنتے رہے ہیں لیکن حالیہ برسوں میں متعدد واقعات میں خواتین اور بچے بھی اس کا براہ راست نشانہ بنے جس سے ہزارہ برادری کی خواتین ذہنی دباؤ کا شکار ہوئیں۔
"خواتین فطری طور پر حساس ہوتی ہیں جب ان کے خاندان کے مردوں کو مارا جاتا ہے وہ ہدف بنتے ہیں تو اس کا نفسیاتی دباؤ بھی ہوتا ان پر۔ بہت سوں کے شوہر مارے گئے، بھائی مارے گئے تو وہ اس غمناک صورتحال میں خود کو بھی محفوظ تصور نہیں کرتیں اور ان کی ذہنی حالت متاثر ہوتی ہے۔"
بزارہ برادری سے تعلق رکھنے والی سیما بتول سحر بھی جرنلزم کی طالبہ ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی سرگرمیوں میں بھی پیش پیش ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جون 2013ء میں کوئٹہ میں خواتین کی یونیورسٹی کی بس پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد انھیں ایسے تاثر کا سامنا بھی کرنا پڑا کہ جیسے یہ واقعہ ان کی وجہ سے ہوا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ "یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ یہ ہم لوگوں کی وجہ سے ہوا ہدف تو اصل ہزارہ لوگ ہی تھے، ان سب باتوں کا ہم پر بہت برا اثر پڑا ہے۔"
سردار بہادرخان ویمن یونیورسٹی کے احاطے میں کھڑی ایک بس میں اس وقت دھماکا ہوا جب طالبات اس پر سوار ہو رہی تھیں۔ جب اس واقعے کے زخمیوں کو بولان میڈیکل کمپلیکس منتقل کیا گیا تو وہاں دوسرا دھماکا ہوا۔ ان واقعات میں کم ازکم 13 طالبات سمیت 21 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
طیبہ کہتی ہیں کہ یہ خطرات اور دباؤ انھیں اور نہ ہی دیگر ہزارہ خواتین کے ان کے بقول اپنی برداری اور سماج کے لیے عزم کو متزلزل کر سکا ہے۔
"سماجی و نفسیاتی دباؤ ہے لیکن اس کے باوجود ان کے عزم میں کوئی تبدیلی نہیں آئی وہ پہلے سے زیادہ پرعزم ہیں۔ ان ٹارگٹڈ حملوں کے بعد خواین میں زیادہ جوش و خروش دیکھا گیا اور جذبہ بھی بڑھا جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ پہلے سے زیادہ باہمت ہیں اور (مقصد پر توجہ) مرکوز کیے ہوئے ہیں۔"
بتول سحر کو ایسے حالات میں کئی بار کہیں اور منتقل ہونے کا خیال بھی آیا لیکن انھوں نے اسے جھٹک دیا۔
"معاشرے میں انسان کو عزت و وقار اور عزم کے ساتھ رہنا چاہیے۔ میرا پیغام یہ دوسری خواتین کے لیے بھی ہے خاص طور پر بلوچستان میں خواتین کے لیے کہ زندگی میں عزم اور ارادہ بہت اہم ہے۔ میں بحیثیت ہزارہ خاتون وقار کے ساتھ معاشرے میں رہنا چاہتی ہوں اور امن و ہم آہنگی کو فروغ دینا چاہتی ہوں۔"
ان کا کہنا تھا کہ سماجی استحکام کو فروغ دے کر ہی معاشی اور سیاسی پائیداری کا حصول ممکن ہے اور اس میں خواتین کا کردار کسی بھی صورت کم نہیں۔