واشنگٹن —
جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیر منور حسن نے کہا ہے کہ توہین مذہب کے ملزم کو اپنے دفاع کا اسی طرح حق حاصل ہے، جس طرح کسی دوسرے جرم کے نامزد ملزم کو۔ جو لوگ اس سے مختلف موقف اپناتے ہیں، ان کے موقف کی پذیرائی کوئی قانون نہیں کرتا۔
منور حسن 'وائس آف امریکہ اردو' کے پروگرام 'انڈیپنڈنس ایونیو' میں گفتگو کر رہے تھے۔
سید منور حسن نے گزشتہ ہفتے ملتان میں قتل ہونے والے انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے رکن ایڈووکیٹ راشد رحمان کے قتل کی مذمت کی اور کہا کہ حکومتیں بے عملی کا شکار ہیں، اور قانون کی عمل داری اور لوگوں کے لئے توہین مذہب کے کیسز میں بھی کئی دیگر معاملوں کی طرح انصاف تک رسائی ممکن نہیں رہی۔
اس سوال کے جواب میں کہ بہاءالدین زکریا یونیورسٹی میں انگریزی کے جس استاد کے خلاف توہین مذہب کا کیس قائم کیا گیا ہے، اس میں جماعت اسلامی کے طلبہ ونگ کا نام لیا جا رہا ہے، تو کیا اس نوجوان کو انصاف دلوانے میں جماعت اسلامی پاکستان کوئی کردار ادا کرسکتی ہے؟ منور حسن کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس سے پہلے یہ بات کسی سے نہیں سنی۔ تاہم کیس کی تحقیقات ہونی چاہئیں اور اگر یہ معاملہ بدنیتی پر مبنی ہے تو اس کے ذمہ داروں سے مکمل تحقیقات کی جانی چاہئیں۔
تاہم منور حسن کا کہنا تھا کہ مسئلے کو حل کروانے کے لیے با اختیار اور مینڈیٹ والے لوگ ہی کام کر سکتے ہیں، مگر ایسا نہیں کیا جاتا۔
اس سوال کے جواب میں کہ 1986ء کے بعد سے پاکستان میں توہین مذہب کے 1276 کیسز درج کئے گئے، اس تعداد میں اضافے کو روکنے کے لئے کیا اقدامات کرنے ضروری ہیں؟ منور حسن کا کہنا تھا کہ ریاست کو اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے، اور اگر ایسا نہیں ہو رہا تو سبھی کو مل کر ریاست پر زور ڈالنا چاہیے کہ جس مینڈیٹ کے نام پر وہ اقتدار میں آئے ہیں، اس کا استعمال کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کریں۔ اور راشد رحمان اور جنید حفیظ کے کیس کو ٹیسٹ کیس کے طور پر حل کرائیں۔
انہوں نے کہا کہ مسلم شدت پسندی نے کسی نظریئے کی کوکھ سے جنم نہیں لیا، بلکہ یہ حالات کی پیداوار ہے۔ ڈرون حملے، عراق پر حملہ، ان سب چیزوں کا رد عمل مسلم شدت پسندی کی صورت سامنے آتا ہے۔
انہوں نے مصر، شام اور بنگلہ دیش کی حکومتوں کے معاملے میں مبینہ طور پر مغربی چشم پوشی کا ذکر کیا اور کہا کہ شدت پسندی اس صورتحال کا رد عمل ہے۔
لیکن پاکستان کو اس کا جو نقصان ہو رہا ہے، اسے کیسے روکا جائے؟ اس پر منور حسن کا کہنا تھا کہ ریاست اگر امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوششیں ترک کر کے معاملات کو سلجھانے کی کوشش کرے تو مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
'ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان' کے آئی اے رحمان کا کہنا تھا کہ دینی جماعتیں صورتحال کو بہتر بنانے میں بہت مثبت کردار ادا کر سکتی ہیں لیکن وہ ایسا نہیں کر رہیں۔
انہوں نے کہا کہ کوئی یہ نہیں سوچ رہا کہ مذہب کے نام پر جو بربریت پھیلائی جا رہی ہے، اس کا شکار وہ لوگ خود بھی ہو سکتے ہیں، جو اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں۔
انہوں نے جھنگ میں وکلا کے خلاف درج کرائے جانے والے توہین مذہب کے کیس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دینی علما کو عوام کو یہ سمجھانا چاہئے کہ ’’نفرت پھیلانے سے ہمارا اپنا گھر بھی جل سکتا ہے۔"
جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ جاوید اقبال نے کہا کہ 1980ء کے دہائی کے بعد سے پاکستانی معاشرے میں عدم برداشت بہت بڑھ چکی ہے۔ پاکستان تو ایسا ملک ہے، جس کے بارے میں قائد اعظم نے کہا تھا کہ وہاں مسلمان، مسلمان نہیں، ہندو ہندو نہیں اور مسیحی مسیحی نہیں رہے گا، کیونکہ شہریت کے حوالے سے انہیں برابر سمجھا جائے گا۔ لیکن آج کے پاکستان میں مذہب کے ٹھیکدار کہتے ہیں کہ اب یہاں صرف مسلمان ہی رہ سکتے ہیں۔ اسی لئے ہر وہ شخص جو اقلیت کے حق یا مظلوم کے لئے انصاف کی آواز بلند کرتا ہے، اسے ہدف بنا لیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا ملک اجتہادی سوچ کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا۔ جس کا مطلب ہے کہ جب معاشرہ تبدیل ہوتا ہے تو قوانین میں بھی تبدیلی آ سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت کی یہی بنیاد ہے کہ منتخب نمائندے ایوان میں بیٹھ کر غور کریں کہ کن قوانین میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے، اور ضرورت پڑنے پر تبدیلی کا راستہ اختیار کیا جائے۔ خصوصاً وہ قوانین جو غاصب اپنے فائدے کے لئے بناتے ہیں، انہیں تو تبدیل کرنے کی ازبس ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن ایسا کون کرےگا؟ ہر شخص خوفزدہ ہے، کہ جانے اس پر کس قسم کی توہین کا الزام عائد کر دیا جائے۔
صحافی اور ٹاک شو میزبان رضا رومی کا کہنا تھا کہ ریاست نے اگر انتہا پسندی کو ہوا نہیں دی، تو اسے روکنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ وکلاء کو، ججز کو مار دیا جاتا ہے۔ ملزمان پکڑے نہیں جاتے۔ پکڑے جاتے ہیں تو ان کے ٹرائلز نہیں ہوتے۔ ٹرائلز ہوتے ہیں تو گواہان کو مار دیا جاتا ہے۔ پورے کا پورا عدالتی نظام ہی ناکام ہو جاتا ہے۔ جب تک ریاست کے اہم عہدے دار جرائم کو جرائم سمجھ کر سخت کارروائی نہیں کریں گے، مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
رضا رومی نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں میڈیا کی جو جنگ جاری ہے، اس نے بھی اسی لئے توہین مذہب کے الزامات کی شکل اختیار کر لی ہے ،کیونکہ یہ ایک ہتھیار بن گیا ہے۔ اگر کسی طاقتور نے کسی کمزور کو دبانا ہے تو وہ اس پر توہین مذہب کا الزام لگا دے گا، اور اس کے بعد آپ کے پاس اس کوئی مداوا نہیں ہے۔
رضا رومی نے کہا کہ صحت مند معاشروں میں بحث و مباحثے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، تاکہ ہر طرح کی سوچ کو اظہار کا راستہ مل سکے۔ لیکن انتہا پسند سوچ میڈیا اور شعبہ تعلیم سمیت ہر شعبے میں سرائیت کر چکی ہے۔ مثلاً جنید کے کیس میں مبینہ طور پر بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی کے کچھ اساتذہ کے نام سامنے آرہے ہیں لیکن کسی نے تحقیق نہیں کی، یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ آیا جنید نے کوئی گستاخانہ بات کی بھی تھی یا نہیں۔ الٹا انہیں نوکری سے نکال کر جیل بھیج دیا گیا۔
رضا رومی کا کہنا تھا کہ اس لئے مسلم لیگ نون، تحریک انصاف، پیپلز پارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، کیونکہ یہ جماعتیں رائے عامہ تیار کرتی ہیں۔ ان کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ لیکن خوف کی فضا اہم معاملات پر کسی کو کوئی دو ٹوک موقف اختیار نہیں کرنے دیتی۔ ۔ بےنظیر بھٹو، شہباز بھٹی، اور اے این پی کے سینکڑوں کارکن ان ہی قوتوں کے ہاتھوں پاکستان میں مارے جا چکے ہیں ،لیکن کوئی محاسبہ نہیں ہوا۔ جب تک سزا اور جزا کا عمل آگے نہیں بڑھایا جاتا، معاشرے میں انتشار اور خوف کی کیفیت برقرار رہے گی۔
منور حسن 'وائس آف امریکہ اردو' کے پروگرام 'انڈیپنڈنس ایونیو' میں گفتگو کر رہے تھے۔
سید منور حسن نے گزشتہ ہفتے ملتان میں قتل ہونے والے انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے رکن ایڈووکیٹ راشد رحمان کے قتل کی مذمت کی اور کہا کہ حکومتیں بے عملی کا شکار ہیں، اور قانون کی عمل داری اور لوگوں کے لئے توہین مذہب کے کیسز میں بھی کئی دیگر معاملوں کی طرح انصاف تک رسائی ممکن نہیں رہی۔
اس سوال کے جواب میں کہ بہاءالدین زکریا یونیورسٹی میں انگریزی کے جس استاد کے خلاف توہین مذہب کا کیس قائم کیا گیا ہے، اس میں جماعت اسلامی کے طلبہ ونگ کا نام لیا جا رہا ہے، تو کیا اس نوجوان کو انصاف دلوانے میں جماعت اسلامی پاکستان کوئی کردار ادا کرسکتی ہے؟ منور حسن کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس سے پہلے یہ بات کسی سے نہیں سنی۔ تاہم کیس کی تحقیقات ہونی چاہئیں اور اگر یہ معاملہ بدنیتی پر مبنی ہے تو اس کے ذمہ داروں سے مکمل تحقیقات کی جانی چاہئیں۔
تاہم منور حسن کا کہنا تھا کہ مسئلے کو حل کروانے کے لیے با اختیار اور مینڈیٹ والے لوگ ہی کام کر سکتے ہیں، مگر ایسا نہیں کیا جاتا۔
اس سوال کے جواب میں کہ 1986ء کے بعد سے پاکستان میں توہین مذہب کے 1276 کیسز درج کئے گئے، اس تعداد میں اضافے کو روکنے کے لئے کیا اقدامات کرنے ضروری ہیں؟ منور حسن کا کہنا تھا کہ ریاست کو اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے، اور اگر ایسا نہیں ہو رہا تو سبھی کو مل کر ریاست پر زور ڈالنا چاہیے کہ جس مینڈیٹ کے نام پر وہ اقتدار میں آئے ہیں، اس کا استعمال کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کریں۔ اور راشد رحمان اور جنید حفیظ کے کیس کو ٹیسٹ کیس کے طور پر حل کرائیں۔
انہوں نے کہا کہ مسلم شدت پسندی نے کسی نظریئے کی کوکھ سے جنم نہیں لیا، بلکہ یہ حالات کی پیداوار ہے۔ ڈرون حملے، عراق پر حملہ، ان سب چیزوں کا رد عمل مسلم شدت پسندی کی صورت سامنے آتا ہے۔
انہوں نے مصر، شام اور بنگلہ دیش کی حکومتوں کے معاملے میں مبینہ طور پر مغربی چشم پوشی کا ذکر کیا اور کہا کہ شدت پسندی اس صورتحال کا رد عمل ہے۔
لیکن پاکستان کو اس کا جو نقصان ہو رہا ہے، اسے کیسے روکا جائے؟ اس پر منور حسن کا کہنا تھا کہ ریاست اگر امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوششیں ترک کر کے معاملات کو سلجھانے کی کوشش کرے تو مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
'ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان' کے آئی اے رحمان کا کہنا تھا کہ دینی جماعتیں صورتحال کو بہتر بنانے میں بہت مثبت کردار ادا کر سکتی ہیں لیکن وہ ایسا نہیں کر رہیں۔
انہوں نے کہا کہ کوئی یہ نہیں سوچ رہا کہ مذہب کے نام پر جو بربریت پھیلائی جا رہی ہے، اس کا شکار وہ لوگ خود بھی ہو سکتے ہیں، جو اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں۔
انہوں نے جھنگ میں وکلا کے خلاف درج کرائے جانے والے توہین مذہب کے کیس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دینی علما کو عوام کو یہ سمجھانا چاہئے کہ ’’نفرت پھیلانے سے ہمارا اپنا گھر بھی جل سکتا ہے۔"
جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ جاوید اقبال نے کہا کہ 1980ء کے دہائی کے بعد سے پاکستانی معاشرے میں عدم برداشت بہت بڑھ چکی ہے۔ پاکستان تو ایسا ملک ہے، جس کے بارے میں قائد اعظم نے کہا تھا کہ وہاں مسلمان، مسلمان نہیں، ہندو ہندو نہیں اور مسیحی مسیحی نہیں رہے گا، کیونکہ شہریت کے حوالے سے انہیں برابر سمجھا جائے گا۔ لیکن آج کے پاکستان میں مذہب کے ٹھیکدار کہتے ہیں کہ اب یہاں صرف مسلمان ہی رہ سکتے ہیں۔ اسی لئے ہر وہ شخص جو اقلیت کے حق یا مظلوم کے لئے انصاف کی آواز بلند کرتا ہے، اسے ہدف بنا لیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا ملک اجتہادی سوچ کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا۔ جس کا مطلب ہے کہ جب معاشرہ تبدیل ہوتا ہے تو قوانین میں بھی تبدیلی آ سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت کی یہی بنیاد ہے کہ منتخب نمائندے ایوان میں بیٹھ کر غور کریں کہ کن قوانین میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے، اور ضرورت پڑنے پر تبدیلی کا راستہ اختیار کیا جائے۔ خصوصاً وہ قوانین جو غاصب اپنے فائدے کے لئے بناتے ہیں، انہیں تو تبدیل کرنے کی ازبس ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن ایسا کون کرےگا؟ ہر شخص خوفزدہ ہے، کہ جانے اس پر کس قسم کی توہین کا الزام عائد کر دیا جائے۔
صحافی اور ٹاک شو میزبان رضا رومی کا کہنا تھا کہ ریاست نے اگر انتہا پسندی کو ہوا نہیں دی، تو اسے روکنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ وکلاء کو، ججز کو مار دیا جاتا ہے۔ ملزمان پکڑے نہیں جاتے۔ پکڑے جاتے ہیں تو ان کے ٹرائلز نہیں ہوتے۔ ٹرائلز ہوتے ہیں تو گواہان کو مار دیا جاتا ہے۔ پورے کا پورا عدالتی نظام ہی ناکام ہو جاتا ہے۔ جب تک ریاست کے اہم عہدے دار جرائم کو جرائم سمجھ کر سخت کارروائی نہیں کریں گے، مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
رضا رومی نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں میڈیا کی جو جنگ جاری ہے، اس نے بھی اسی لئے توہین مذہب کے الزامات کی شکل اختیار کر لی ہے ،کیونکہ یہ ایک ہتھیار بن گیا ہے۔ اگر کسی طاقتور نے کسی کمزور کو دبانا ہے تو وہ اس پر توہین مذہب کا الزام لگا دے گا، اور اس کے بعد آپ کے پاس اس کوئی مداوا نہیں ہے۔
رضا رومی نے کہا کہ صحت مند معاشروں میں بحث و مباحثے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، تاکہ ہر طرح کی سوچ کو اظہار کا راستہ مل سکے۔ لیکن انتہا پسند سوچ میڈیا اور شعبہ تعلیم سمیت ہر شعبے میں سرائیت کر چکی ہے۔ مثلاً جنید کے کیس میں مبینہ طور پر بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی کے کچھ اساتذہ کے نام سامنے آرہے ہیں لیکن کسی نے تحقیق نہیں کی، یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ آیا جنید نے کوئی گستاخانہ بات کی بھی تھی یا نہیں۔ الٹا انہیں نوکری سے نکال کر جیل بھیج دیا گیا۔
رضا رومی کا کہنا تھا کہ اس لئے مسلم لیگ نون، تحریک انصاف، پیپلز پارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، کیونکہ یہ جماعتیں رائے عامہ تیار کرتی ہیں۔ ان کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ لیکن خوف کی فضا اہم معاملات پر کسی کو کوئی دو ٹوک موقف اختیار نہیں کرنے دیتی۔ ۔ بےنظیر بھٹو، شہباز بھٹی، اور اے این پی کے سینکڑوں کارکن ان ہی قوتوں کے ہاتھوں پاکستان میں مارے جا چکے ہیں ،لیکن کوئی محاسبہ نہیں ہوا۔ جب تک سزا اور جزا کا عمل آگے نہیں بڑھایا جاتا، معاشرے میں انتشار اور خوف کی کیفیت برقرار رہے گی۔