پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے تصدیق کی ہے کہ فوج کے دو اعلیٰ عہدے دار جاسوسی کے الزام میں تحویل میں ہیں اور آرمی چیف نے دونوں افسروں کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا حکم دیا ہے۔
آرمی ہیڈ کواٹرز راولپنڈی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے میجر جنرل آصف غفور نے بتایا کہ فوج کے دونوں افسران کے مقدمات کی نوعیت علیحدہ علیحدہ ہے اور دونوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں، نہ ہی کوئی نیٹ ورک ہے۔
انہوں نے فوجی افسروں کی گرفتاری کو کامیابی قرار دیا اور کہا کہ اتنی بڑی فوج میں اس طرح کے معاملات ہوتے رہتے ہیں۔ ہم نے ان کی نشاندہی کی اور انہیں گرفتار کیا۔
تاہم پاکستانی فوج کے ترجمان نے یہ وضاحت نہیں کی کہ یہ افسر کس ملک کے لئے جاسوسی کر رہے تھے اور ان پر الزامات کی نوعیت یا ان کے عہدے کیا ہیں۔
آصف غفور کا کہنا تھا کہ جب ان دونوں فوجی افسروں کا کورٹ مارشل مکمل ہو جائے گا تو اس بارے میں مزید تفصیلات فراہم کی جائیں گی۔
فوج کے ترجمان نےمزید کہا کہ بھارتی خفیہ ادارے کے سابق سربراہ کے ساتھ کتاب لکھنے پر آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹینٹ جنرل (ریٹائرڈ) اسد درانی کے خلاف ہونے والی انکوائری میں انھیں فوجی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا مرتکب پایا گیا ہے۔
آصف غفور کے مطابق جنرل اسد درانی نے کتاب لکھنے کے لئے مروج قوائد و ضوابط پر عملدرامد نہیں کیا اور اس سلسلے میں جو روابط رکھے وہ ملٹری ضابطہ کار کی خلاف ورزی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’فارمل کورٹ آف انکوائری‘ نے جنرل اسد درانی کی پینشن اور تمام مراعات ختم کر دی ہیں، لیکن ان کا عہدہ برقرار رہے گا۔
انھوں نے مزید کہا کہ اسد درانی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں پہلے سے شامل ہے جسے جاری رکھنے کے لئے وزارت داخلہ سے بات کی جائے گی۔
اسد درانی کے کتاب تحریر کرنے کے 'عمل کو فوجی ضابطۂ کار کی خلاف ورزی کے طور پر لیا گیا تھا اور پاکستانی فوج نے کتاب شائع ہونے کے فورا بعد گذشتہ سال باضابطہ تحقیقات کا اعلان کیا تھا۔
اسد درانی اور بھارت کے خفیہ ادارے ’را‘ کے سابق سربراہ اے ایس دُلت نے سپائی کرونیکلز کے نام سے پاکستان اور بھارت کی صورتحال کے پس منظر میں مشترکہ طور پرکتاب تحریر کی تھی۔ یہ کتاب دبئی، استنبول اور کٹھمنڈو میں ان دونوں کی ملاقاتوں میں ہونے والی گفتگو پر مبنی ہے۔
خیال رہے کہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کو اصغر خان کیس میں ان کا نام آنے کے بعد انھیں پہلے آئی ایس آئی سے جی ایچ کیو بلوا لیا گیا تھا اور بعد ازاں سیاسی امور میں مداخلت جاری رکھنے پر قبل از وقت ریٹائر یعنی فوج سے برخاست کر دیا گیا تھا۔