رسائی کے لنکس

وفاقی ملازمین کے لیے 15 فی صد الاؤنس, 'حکومت تنخواہ بڑھانے کے بجائے مہنگائی کنٹرول کرے'


پاکستان میں وفاقی حکومت نے 'کم مراعات یافتہ' وفاقی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فی صد اضافے کا اعلان کیا ہے جسے بعض حلقے حکومت کا اچھا اقدام قرار دے رہے ہیں جب کہ کچھ بعض افراد کا کہنا ہے کہ حکومت کو مہنگائی کی چکی میں پسنے والے نجی شعبے کے ملازمین کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔

پاکستان کی وفاقی حکومت نے 'ڈسپیرٹی الاؤنس' کی صورت میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فی صد اضافے کا اعلان کیا ہے جس کا اطلاق آئندہ ماہ سے کیا جائے گا۔

وزارت خزانہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق وفاقی حکومت نے صوبائی حکومتوں کو بھی سفارش کی ہے کہ وہ اسی تناسب سے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کریں۔

حکومت کی جانب سے یہ اعلان ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب سرکاری ملازمین نے جمعرات کو وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں احتجاج کا اعلان کر رکھا تھا۔

حکومت کی جانب سے تنخواہوں میں اضافے کے اعلان کے بعد ملازمین نے اپنے احتجاج کو یومِ تشکر میں بدلتے ہوئے حکومت سے سرکاری اداروں کی نجکاری نہ کرنے پر زور دیا ہے۔

وزیرِ خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے وفاقی حکومت کی جانب سے سرکاری شعبے کے ملازمین کو ریلیف فراہم کرنے کا فیصلہ کیا جو مہنگائی کے دباؤ کا سامنا کرنے میں مددگار ہوگا۔

ملک میں گزشتہ دو سال میں مہنگائی میں مسلسل اضافہ ریکارڈ کیا جارہا ہے اور سال 2021 میں مہنگائی کی اوسط شرح 10 فی صد سے زائد رہی ہے۔

مالیاتی اداروں کے جائزوں کے مطابق موجودہ مالی سال میں مہنگائی کی شرح ’ڈبل ڈیجیڈ‘ میں رہنے کا امکان ہے جب کہ رواں سال کے پہلے ماہ میں مہنگائی دو سال کی بلند ترین سطح پر پہنچتے ہوئے 13 فی صد تک بڑھ گئی۔


حکومت عام طور پر تنخواہوں میں اضافے کا اعلان جون میں مالی سال کا بجٹ پیش کرتے ہوئے کرتی ہے تاہم مہنگائی اور احتجاج کو دیکھتے ہوئے حکومت کو یہ فیصلہ فروری میں لینا پڑا۔

جمعرات کو ملک بھر کے سرکاری ملازمین نے جمعرات کو پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے احتجاج کا اعلان کر رکھا تھا تاہم احتجاج کے آغاز سے پہلے ہی حکومت نے گریڈ ایک سے 19 تک کے سرکاری ملازمین کو 15 فی صد ڈسپیرٹی الاؤنس دینے کا اعلان کر دیا۔ یہ الاؤنس ملازمین کو اُن کی جاری بنیادی تنخواہ پر دیا جائے گا۔

وزارتَ خزانہ کے مطابق کافی عرصے سے ایک ہی گریڈ میں رہنے والوں کی پروموشن سمری بھی تیار کر لی گئی ہے۔ ملازمین کو ملنے والے ایڈہاک الاؤنسز و ریلیف بنیادی تنخواہوں میں ضم کرنے کا فیصلہ پے اینڈ پنشن کمیشن کی رپورٹ پر کیا جائے گا۔

اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے جاری اعداد و شمار کے مطابق وفاقی سرکاری ملازمین کی تعداد پانچ لاکھ 81 ہزار سے زائد ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ سال وفاقی ملازمین کے احتجاج پر حکومت نے تنخواہوں میں اضافے کی یقین دہانی کروائی تھی تاہم اس پر عملدرآمد نہیں کیا جاسکا تھا۔

'مہنگائی کو روکنا تنخواہ بڑھانے سے بہتر ہوگا'

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے حکومت کو تنخواہیں بڑھانے سے زیادہ توجہ بڑھتی ہوئی مہنگائی روکنے پر دینی چاہیے۔

معاشی اُمور کے ماہر تجزیہ کار فرخ سلیم کہتے ہیں کہ وفاقی ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فی صد اضافے سے کچھ ریلیف تو ضرور ملے گا۔ تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ تنخواہیں بڑھانے سے زیادہ بہتر یہ اقدام ہوگا کہ حکومت مہنگائی کو قابو میں لائے۔

اُن کے بقول حکومتی ملازمین کی تنخواہ میں کچھ اضافہ تو کر دیا گیا ہے لیکن باقی 22 کروڑ پاکستانی عوام مشکلات کا سامنا کس طرح کریں گے۔

اُن کے بقول حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ دو برس کے دوران اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں 30 سے 35 فی صد تک اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مہنگائی جو کہ ایک مخفی ٹیکس ہے اس پر حکومت کو توجہ دینی چاہیے اور صرف تنخواہیں بڑھانے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا ہے۔

فرخ سلیم کے بقول تنخواہوں میں اضافے کا اعلان معاشی سے زیادہ سیاسی فیصلہ لگتا ہے۔ کیونکہ مہنگائی کے دباؤ کے ساتھ ساتھ حزبِ اختلاف حکومت کے خلاف تحریک چلا رہی ہے اور الیکشن کا وقت بھی قریب آ رہا ہے۔

تنخواہوں میں اضافے پر آئی ایم ایف کی جانب سے کسی ممکنہ اعتراض کے سوال پر فرخ سلیم نے کہا کہ آئی ایم ایف کہتا ہے کہ بجٹ خسارہ کم کیا جائے جس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کی آمدن تو بڑھ رہی ہے لیکن بجٹ خسارہ زیادہ تیزی سے بڑھ رہا ہے جو کہ قابلِ تشویش ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ طے کردہ پیٹرولیم لیوی میں چار روپے اضافہ کرنے کا فیصلہ بھی روک رکھا ہے جس پر عالمی مالیاتی ادارہ سوال اُٹھا سکتا ہے۔

معاشی امور کے تجزیہ نگار علی خضر کہتے ہیں کہ تنخواہوں میں اضافے سے حکومت کے بجٹ پر بوجھ پڑے گا۔

اُن کے بقول تنخواہوں میں اضافے کے باوجود ملازمین کی قوتِ خرید زیادہ نہیں بڑھے گی، لیکن بہرحال اُنہیں ریلیف ضرور ملا ہے جو نجی شعبے میں کام کرنے والے ملازمین کو بھی ملنا چاہیے۔

XS
SM
MD
LG