پاکستان نے افغانستان سے ملحقہ طورخم کے سرحدی راستے کے ذریعے بغیر سفری دستاویزات کے لوگوں کی آمد و رفت روک دی ہے۔
اس سے قبل پاکستان کی طرف سے بارہا یہ کہا جاتا رہا ہے کہ یکم جون سے اُن افراد کو سرحد عبور نہیں کرنے دی جائے گی جن کے پاس سفری دستاویزات نہیں ہوں گی۔
اسی فیصلے کے تناظر میں بدھ سے پاکستان حکام نے سفری دستاویزات کی جانچ پڑتال کا عمل سخت کر دیا، جس کے وجہ سے سینکڑوں افراد کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
صوبہ خیبر پختونخواہ کے گورنر اقبال ظفر جھگڑا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ خطے میں امن کے لیے پاک افغان سرحد کی نگرانی ضروری ہے۔
’’میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت اہم پیش رفت ہے دونوں ممالک کے لیے اس خطے کے لیے۔۔۔۔ اس کے فائدے افغانستان کو بھی ہوں گے پاکستان کو بھی ہوں گے کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ یہاں امن قائم ہو امن قائم کرنے کے لیے سرحدی کنٹرول نہایت ہی ضروری ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے ان (افغان حکام) کے ساتھ باقاعدہ میٹنگ میں یہ طے کیا ہے کہ سرحد پر کنٹرول ضروری ہے۔ ‘‘
اُدھر پاکستان کے سرکاری ٹی وی نے وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا کے حوالے سے کہا کہ طورخم پر سرحدی نظام کو موثر بنایا گیا ہے اور صرف اُن ہی افغان شہریوں کو پاکستان میں داخلے کی اجازت دی جائے گی جن کے پاس سفر کے لیے ویزا ہو گا۔
تاہم وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا کا کہنا تھا کہ مریضوں اور پاکستان میں زیر تعلیم افغان طالب علموں کو سفر کے لیے ہر ممکن معاونت فراہم کی جائے گی۔
پاکستان نے قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں اپنی سرحد کی نگرانی بڑھانے کے باڑ لگانے کا کام شروع کیا تھا، لیکن اس بارے میں افغان حکام کے اعتراض کے بعد دونوں ملکوں میں کشیدگی پیدا ہو گئی اور طورخم سرحد جولائی کے دوسرے ہفتے میں چار روز تک بند رہی۔
اس دوران نا صرف ہزاروں افراد کو مشکلات کا سامنا رہا بلکہ تجارتی سامان سے لدی گاڑیاں بھی پھنسی رہیں۔
تاہم پاکستان میں افغان سفیر حضرت عمر زخیلوال نے 13 مئی کو جنرل راحیل شریف سے ملاقات میں اس معاملے پر بات کی تھی جس کے بعد طورخم سرحد کو چار روز بعد آمد و رفت کے لیے کھول دیا گیا تھا۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد لگ بھگ 2600 کلومیٹر طویل ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان اس سرحد کے دشوار گزار راستوں سے کو شدت پسند ایک سے دوسرے ملک میں داخلے کے لیے گزر گاہوں کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
پاکستانی حکام کا یہ بھی موقف رہا ہے کہ باقاعدہ سرحدی راستوں کے ذریعے بھی عام شہریوں کے بھیس میں دہشت گرد پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔
حالیہ برسوں میں پاکستان کی طرف سے نا صرف افغان حکومت بلکہ افغانستان میں تعینات بین الاقوامی افواج کے کمانڈروں سے پاک افغان سرحد کی نگرانی موثر بنانے کے حوالے سے بات چیت ہوتی رہی ہے۔
پاکستانی حکام کا ماننا ہے کہ سرحد کی کڑی نگرانی سے دونوں ہی ملکوں میں امن و امان کے لیے کی جانے والی کوششیں کامیاب ہوں گی۔
واضح رہے گزشتہ ماہ کے اواخر میں پاکستان نے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان میں انگور اڈہ کے مقام پر قائم ایک سرحدی ’کراسنگ پوائنٹ‘ افغان حکومت کے حوالے کیا تھا۔
پاکستانی فوج کے مطابق افغانستان سے دوطرفہ تعلقات میں بہتری کے لیے عملی اقدام کے طور پر انگور اڈہ چیک پوسٹ افغان حکومت کے حوالے کی گئی۔ دو طرفہ سرحد کی نگرانی بہتر بنانے کی غرض سے یہ چیک پوسٹ قائم کی گئی تھی۔