رسائی کے لنکس

پاکستان: ملا برادر کی رہائی کا فیصلہ ’سوچ سمجھ‘ کر کیا


اعزاز احمد چودھری
اعزاز احمد چودھری

ترجمان اعزاز احمد چودھری کہتے ہیں کہ طالبان سے مذاکرات سمیت افغانستان میں مصالحتی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے بارے میں پاکستان امریکہ اور افغان حکومت سے قریبی رابطے میں ہے۔

پاکستان نے اس عزم کو دہرایا ہے کہ افغانستان میں استحکام کے لیے کی جانے والی تمام کوششوں کی حمایت جاری رکھی جائے گی اور امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے افغان طالبان کے سابق نائب سربراہ کو رہا کرنے کا فیصلہ بھی اس سلسلے کی کڑی ہے۔

دفتر خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چودھری نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ ملا عبدالغنی برادر کی رہائی کا اصولی فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے اور اُن کے بقول طالبان کے سابق نائب امیر کو مناسب وقت پر رہا کر دیا جائے گا۔

اُن کا کہنا تھا کہ افغان صدر حامد کرزئی کی تشکیل کردہ اعلٰی امن کونسل اور افغان حکومت کی درخواست پر ملا برادر کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس سے اعزاز احمد چودھری کے بقول اسلام آباد اور کابل کے درمیان تعلقات میں مزید بہتری متوقع ہے۔

’’بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان افغانستان چاہتا ہے کہ مفاہمی عمل کو آگے بڑھایا جائے، ہم کیوں چاہتے ہیں کہ یہ عمل آگے بڑھایا جائے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے خیال میں افغانستان میں دیرپا امن صرف اور صرف مفاہمتی عمل کے ذریعے ہی آ سکتا ہے۔‘‘

اعزاز احمد چودھری کہتے ہیں کہ طالبان سے مذاکرات سمیت افغانستان میں مصالحتی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے بارے میں پاکستان امریکہ اور افغان حکومت سے قریبی رابطے میں ہے۔

’’افغانستان کی حکومت اور امریکہ کے ساتھ پاکستان کے حکام مسلسل رابطے میں رہے ہیں ... افغانستان کے مصالحتی عمل میں شریک کرنے کے لیے ان کو رہا کیا جا رہا ہے اور پاکستان یہ کہہ چکا ہے کہ وہ افغستان کی ہر ممکن مدد کرے گا۔‘‘

دفتر خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے یہ حکمت عملی افغانستان کے آئندہ حالات کو دیکھتے ہوئے اختیار کی ہے کیوں کہ اسلام آباد سمجھتا ہے کہ 2014ء میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا سے قبل اگر وہاں ایک مستحکم نظام نا بنایا گیا تو پڑوسی ملک میں ’خلا‘ پیدا ہو سکتا ہے جس کے منفی اثرات پاکستان پر بھی پڑیں گے۔

افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکہ کے نمائندہ خصوصی جیمز ڈوبنز نے بھی ملا برادر کی رہائی کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔

پاکستان کی طرف سے یہ فیصلہ افغان صدر حامد کرزئی کے دورہ اسلام آباد کے بعد کیا گیا۔

صدر کرزئی نے پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت سے ملاقات کے بعد کہا تھا کہ اسلام آباد طالبان اور افغان اعلٰی امن کونسل کے درمیان براہ راست مذاکرات میں اپنا کردار ادا کرے۔

افغان صدر کے اس دورے کے بعد بظاہر دونوں ملکوں کے درمیان روابط میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کی دفاعی اُمور کی کمیٹی کا ایک اعلٰی سطحی وفد چیئرمین مشاہد حسین سید کی سربراہی میں ان دنوں کابل کے دورے پر ہے۔

دفاعی کمیٹی کے وفد نے منگل کی شب صدر حامد کرزئی سے ملاقات کی تھی۔ کمیٹی کے ایک بیان میں کہا گیا کہ اس دورے کا مقصد آئندہ سال افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلا کے تناظر میں دونوں ہمسایہ ممالک کے پارلیمانی نمائندوں کے درمیان سلامتی سے متعلق اُمور پر مذاکرات کو فروغ دینا ہے۔
XS
SM
MD
LG