افغان سرحد سے ملحقہ پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں 2014ء میں شروع کیے جانے والے فوجی آپریشن کے بعد افغانستان نقل مکانی کر جانے والے پاکستانی قبائلیوں میں سے اگرچہ سینکڑوں خاندان رواں ماہ وطن واپس پہنچے، لیکن اب بھی اُن کی ایک اچھی خاصی تعداد افغانستان ہی میں مقیم ہے۔
وائس آف امریکہ کی افغان سروس کے مطابق افغانستان میں موجود مسعود قبائل کے افراد کا کہنا ہے کہ وہ صرف اسی صورت اپنے وطن واپس آئیں گے اگر پاکستانی حکام کی جانب سے یہ یقین دہانی کرائی جائے کہ اُنھیں واپسی پر ’ہراساں‘ نہیں کیا جائے گا۔
افغان عہدیداروں کے مطابق خوست اور پکتیکا کے صوبوں میں قائم عارضی کیمپوں میں لگ بھگ آٹھ سو سے ایک ہزار پاکستانی قبائلی خاندان اب بھی مقیم ہیں۔
پاکستان عہدیداروں کی طرف سے اس توقع کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ شمالی وزیرستان سے افغانستان نقل مکانی کر جانے والے قبائلیوں کی وطن واپسی کا عمل آئندہ ماہ کے اواخر تک مکمل کر لیا جائے گا۔
واضح رہے کہ افغانستان سے واپس آنے والے پاکستانی قبائلیوں کو اُن کے گھروں میں منتقل کرنے کی بجائے ابتدائی طور پر شمالی وزیرستان سے ملحقہ بکا خیل کے علاقے میں قائم کیمپ میں ٹھہرایا گیا، جہاں اُنھیں کم از کم دو سے تین ہفتے تک رکھا جائے گا۔
اطلاعات کے مطابق افغانستان سے واپس آنے والے پاکستانی قبائلی خاندانوں سے پوچھ گچھ کے بعد ہی اُنھیں شمالی وزیرستان منتقل کیا جائے گا۔
لیکن افغانستان سے واپس آنے والے خاندانوں کو ہراساں کرنے کی خبروں کی پاکستان میں قبائلی انتظامیہ نفی کرتی ہے۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان کے اکثر حصے سے دہشت گردوں کا صفایا ہو چکا ہے اور علاقے سے نقل مکانی کر کے جانے والوں کی واپسی کے عمل کے علاوہ بحالی و تعمیر نو کے منصوبے بھی جاری ہیں۔
عارضی طور پر افغانستان منتقل ہو جانے والوں کی درست تعداد تو سامنے نہیں آئی لیکن پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ لگ بھگ ساڑھے آٹھ ہزار خاندان افغانستان گئے تھے جب کہ افغان حکام کے بقول ان افراد کی تعداد ایک لاکھ 27 ہزار کے قریب ہے۔
فوجی آپریشن کے باعث لاکھوں کی تعداد میں قبائلیوں نے اندرون ملک بھی نقل مکانی کی اور اُن کی بھی مرحلہ وار واپسی کا عمل جاری ہے۔