پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے سیاسی راہنماؤں نے سکھوں کے لیے کرتاپور راہداری بنانے کے فیصلے کو سراہتے ہوئے غیر مسلموں کے مقدس مقامات تک رسائی کے لیے جنگ بندی لائن کے آرپار راستے کھولنے کا مطالبہ کیا ہے۔
’وائس آف امریکہ‘ سے انٹرویو میں حکومتی اور حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے سیاسی راہنماؤں نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت تنازعہ کشمیر کو حل کریں اور مذہبی مقامات تک رسائی کے لیے ’ایل او سی‘ کو کھول دیں۔
حزب مخالف کی جماعت مسلم کانفرنس کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم سردار عتیق احمد خان نے کہا ہے کہ کرتارپور مذہبی مقامات کی رسائی کے لیے سرحد کھولنا ’’اچھا اقدام ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ’’کشمیر میں مذہبی مقامات کے علاوہ لاکھوں خاندان عشروں سے ایک دوسرے سے جدا ہیں جن کے درمیان روابط کے لیے ’ایل او سی‘ پر راہداریاں بنائی جائیں‘‘۔
انہوں نے کہا کہ ’’کشمیر میں کرگل، کھوئی رٹہ، مدارپور اور نیلم ویلی میں مذہبی مقامات کی زیارت کے لیے راستے کھولے جائیں‘‘۔
پیپلز پارٹی پاکستانی کشمیر کے صدر چوہدری لطیف اکبر نے کہا کہ ’’کرتارپور بارڈر کا کھلنا قابل تعریف ہے۔ لیکن، کشمیر کا مسئلہ حل کرنا انتہائی ضروری ہے‘‘۔
کشمیر کی خود مختاری کی حامی تنظیم جموں کشمیر لبریشن فرنٹ پاکستانی کشمیر زون کے صدر ڈاکٹر توقیر گیلانی نے کہا ہے کہ ’’کرتارپور سرحد کھلنے کے بعد کشمیر میں لوگوں میں حوصلہ پیدا ہوا ہے کہ کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان بھی راستے کھل سکتے ہیں‘‘۔
جمعیت علمائے اسلام پاکستانی کشمیر کے راہنما قاضی محمود الحسن اشرف کا کہنا تھا کہ ’’کرتارپور سرحد کھولنے سے وفود کے تبادلے اور تجارت سے مسئلہ کشمیر کی صورت حال پر کوئی فرق نہیں پڑے گا‘‘۔
پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم فاروق حیدر خان نے بھی سکھوں اور ہندؤں کو پاکستانی کشمیر میں اپنے مذہبی مقامات کے دورے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں سکھوں اور ہندؤں کے کئی مذہبی مقامات ہیں جن میں کئی مندر، گردوارے اور بارہ دریاں شامل ہیں۔