پاکستان کی وزارت داخلہ کے مطابق گزشتہ 5 سال میں صدر پاکستان نے سزائے موت پانے والے 513 مجرموں کی رحم کی اپیلوں کو مسترد کیا۔
پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق کی طرف سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وزارت داخلہ نے ایک تحریری بیان جمع کروایا جس میں مسترد کی گئی رحم کی اپیلوں کی تفصیلات بتائی گئیں۔
تحریری بیان کے مطابق اس وقت وزارت داخلہ میں سزائے موت کے 38 قیدیوں کی رحم کی اپیلیں موجود ہیں اور اُن میں 13 درخواستوں کو ایوان صدر بھیجا جا چکا ہے۔
واضح رہے کہ رواں ماہ ہی انسانی حقوق کی ایک عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان میں موت کی سزاؤں پر عملدرآمد میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ 2015ء میں یہاں 326 مجرموں کو پھانسی دی گئی جو پاکستان میں کسی بھی ایک سال میں دی گئی پھانسیوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی اس تشویش کے باوجود پاکستان میں سزائے موت پر عمل درآمد کا سلسلہ جاری ہے اور رواں ہفتے ہی چار مزید مجرموں کو پھانسی دی گئی۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جن افراد کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے اُن میں سے اکثریت ایسے مجروں کی ہے جنہیں دہشت گردی میں ملوث ہونے پر سزائے موت نہیں سنائی گئی تھی۔
پاکستان میں 2008 سے 2014ء تک سزائے موت پر عمل درآمد پر غیر اعلانیہ پابندی تھی۔ تاہم دسمبر 2014ء میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے ایک مہلک حملے میں بچوں سمیت لگ بھگ 150 افراد کی ہلاکت کے بعد حکومت نے سزائے موت پر عمل درآمد پر عائد پابندی ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔
پاکستان میں پہلے یہ کہا گیا تھا کہ صرف دہشت گردی اور سنگین جرائم میں ملوث قیدیوں کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا جائے گا لیکن بعد میں دیگر جرائم میں بھی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے قیدیوں کی سزاؤں پر عمل درآمد شروع کر دیا گیا۔
حکومت میں شامل عہدیداروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کو غیر معمولی حالات کا سامنا ہے جن سے نمٹنے کے لیے غیر معمولی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ تاہم حکام کا اصرار ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے اور عدالتی کارروائی مکمل ہونے کے بعد ہی کسی کو ایسی سزا دی جاتی ہے۔