وائس آف امریکہ کے پروگرام جہاں رنگ میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار ڈاکٹر شائستہ تبسم نے کہا ہے کہ دونوں جانب تعلقات بہتر بنانے کی خواہش کے ساتھ ساتھ ضرورت بھی موجود ہے۔ اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکہ اس وقت افغانستان میں موجود ہے اور اس وقت ضرورت خواہش سے زیادہ شدید ہے۔ کیونکہ پاکستان کو شامل کئے بغیر خطے میں امریکی پالیسی کامیاب نہیں ہو سکتی اور خود پاکستان کو بھی ایک مستحکم افغانستان اور امریکہ سے بہتر تعلقات کی ضرورت ہے۔ اس لئے دونوں ہی جانب سے اس ضمن میں کوششیں جاری ہیں اور شاید اس میں زیادہ پیش رفت نہیں ہو سکی ہے لیکن امید کی جا سکتی ہے کہ آئندہ معاملات بہتری کی طرف جائیں گے۔
اس سوال کے جواب میں کہ خطے میں روسی اور چینی اثر و رسوخ میں اضافہ کیا امریکی پالیسی سازوں کے لئے تشویش کا سبب نہیں ہے تو انکا جواب تھا کہ میرے خیال میں بہت سے اسباب ہیں جن کی بنیاد پر امریکہ اپنی پالیسی پر نظر ثانی کر رہا ہے۔ ایک جانب تو ابتدا میں پاکستان پر دباؤ بڑھایا گیا لیکن اب یہ احساس بھی ابھر رہا ہے کہ جنوبی ایشیا کی سیاست میں بڑی تبدیلیاں آرہی ہیں۔ روس اب وہاں ایک ابھرتی ہوئی قوت ہے۔ پھر جب روس چین اور پاکستان کو ملا کر دیکھا جائے تو امریکہ کا محتاط ہونا بنتا ہے خاص طور سے ایسے میں جبکہ کوئی نیا نیکسس بننے کے امکانات سامنے آ رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان کو بہت زیادہ الگ تھلگ کردیا گیا تو روس کے ساتھ اس کے تعلقات بڑھیں گے جبکہ چین کے ساتھ اس کے تعلقات پہلے ہی بہت اچھے ہیں۔ اسی لئے پاکستان کو ایک حد سے زیادہ الگ تھلگ نہیں کیا جانا چاہیئے کہ واپسی کے تمام راستے بند ہو جائیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکی دو متوازی پالیسیاں چلانے کی کوشش کررہے ہیں جس کے میرے خیال کامیابی کے امکانات نہیں ہیں۔ ایک طرف تو وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان انکی مرضی کے مطابق مزید اقدامات کرے اور دوسری جانب وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ دوسرا اتحادی تلاش نہ کرے۔ انہوں نے کہا سی پیک کے بعد خطے میں جو تبدیلیاں آرہی اس پر امریکہ کو یقینی تشویش ہونی چاہیئے کہ سرد جنگ کے دور کی سیاست کا جب اتحاد بنائے گئے احیا نہ ہونے پائے۔ اور اس کے لئے ضروری ہے کہ امریکہ بھی اپنی مجموعی پالیسی پر نظر ثانی کرے۔
مزید تفصیلات کے لیے اس لنک پر کلک کریں۔