پاکستان اپنے ہمسایہ ملک افغانستان سے ملحق سرحد پر دیوار بنا رہا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس کی تعمیر میں مالی مدد کریں۔
پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے بلوم برگ نیوز ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے لیے اس دیوار کی تعمیر کے اخراجات کچھ معنی نہیں رکھتے، کیونکہ جنگ ان پر بہت مالی بوجھ ڈال رہی ہے۔ جب کہ اس دیوار کا خرچہ اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اب تک دیوار کا ایک چھوٹا سا حصہ بنایا گیا ہے کیونکہ سرمائے کی فراہمی ایک مسئلہ ہے۔ تاہم خواجہ آصف نے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ اگلے سال تک دیوار کی تعمیر مکمل کر لی جائے گی۔
پاکستان کے وزیر خارجہ نے نیوز ایجنسی کو بتایا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان 2300 کلومیٹر لمبی سرحد کی نگرانی ڈھیلی ڈھالی ہے اور ہر کوئی اسے عبور کر سکتا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ لگ بھگ 70 ہزار افراد روزانہ یہ سرحد عبور کرتے ہیں ۔آزادانہ نقل و حرکت کے نتیجے میں یقینی طور پر دونوں جانب دہشت گردی پر مبنی کوئی سرگرمی ہوسکتی ہے۔ اس لیے یہ ہمارے باہمی مفاد میں ہے کہ سرحد پر باڑ لگائی جائے۔
وزیر خارجہ خواجہ آصف نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں موجود 20 لاکھ سے افغان پناہ گزینوں کی اپنے وطن واپسی امن کے قیام کے لیے ضروری ہے اور پاکستان چاہتا ہے کہ امریکہ ان کی وطن واپسی میں ہماری مدد کرے۔
پاکستانی حکومت پناہ گزینوں کے کیمپوں کو عسکریت پسندوں کی نرسریوں کے طور پر دیکھتی ہے جب کہ افغانستان یہ الزام عائد کرتا ہے کہ ہمسایہ ملک دہشت گردوں کو پناہ گاہیں فراہم کرکے جارحیت کا مرتکب ہو رہا ہے۔
صدر ٹرمپ نے پچھلے مہینے یہ الزام عائد کرتے ہوئے پاکستان کی تقریباً 2 ارب ڈالر کی امداد روک دی تھی کہ وہ دہشت گردی کے قلع قمع کے لیے بہت کچھ نہیں کر رہا۔
صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ پاکستان نے امریکی قیادت کو بے وقوف بنا کر ایک عشرے کے دوران ان سے 33 ارب ڈالر بٹور لیے اور اس کے بدلے میں سوائے جھوٹ کے اور کچھ نہیں دیا۔
پاکستان کے سیاست دانوں نے صدر ٹرمپ کے جملوں کو ہتک آمیز قرار دیا تھا۔