رسائی کے لنکس

حاصل بزنجو چیئرمین سینیٹ کے امیدوار نامزد


فائل فوٹو
فائل فوٹو

حزبِ اختلاف کی رہبر کمیٹی نے نیشنل پارٹی کے سربراہ حاصل بزنجو کو چیئرمین سینیٹ کا امیدوار نامزد کر دیا ہے۔

حاصل بزنجو کی نامزدگی کا اعلان جمعرات کو اسلام آباد میں رہبر کمیٹی کے اجلاس کے بعد ایک پریس کانفرنس میں کیا گیا۔

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے رہبر کمیٹی کے کنوینر اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما اکرم درانی نے بتایا کہ حزبِ اختلاف کی تمام جماعتوں نے متفقہ طور پر حاصل بزنجو کے نام کی منظوری دی ہے۔

'نیشنل پارٹی' حزبِ اختلاف کی مرکزی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی گزشتہ حکومت کی اتحادی رہی ہے اور خود حاصل بزنجو بھی سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔

گزشتہ ماہ ہونے والی حزبِ اختلاف کی کل جماعتی کانفرنس میں اپوزیشن جماعتوں نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا۔

حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے منگل کو چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد جمع کرائی تھی جس پر قواعد کے مطابق 14 روز میں رائے شماری ہونی ہے۔

حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو پارلیمان کے ایوانِ بالا میں واضح اکثریت حاصل ہے اور انہیں امید ہے کہ وہ بآسانی اپنا چیئرمین سینیٹ منتخب کرا لیں گی۔

موجودہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی گزشتہ سال مارچ میں آزاد حیثیت سے چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے تھے۔ انہوں نے حزبِ اختلاف کے مطالبے پر مستعفی ہونے سے انکار کر دیا ہے۔

اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اکرم خان درانی نے بتایا کہ اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے اتفاق رائے سے چیئرمین سینیٹ کے لیے میر حاصل بزنجو کا نام تجویز کیا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ میر حاصل بزنجو واضح اکثریت سے چیئرمین سینیٹ منتخب ہوں گے۔

اگرچہ اپوزیشن اتحاد نے ڈپٹی چیئرمین اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کے امیدواروں کے ناموں کا اعلان نہیں کیا۔ تاہم، ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کے سلیم مانڈوی والا ڈپٹی چیئرمین سینیٹ رہیں گے اور مسلم لیگ (ن) کے راجہ ظفر الحق سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے طور پر کام کرتے رہیں گے۔

حکمراں جماعت کی مخالفت

حکمران جماعت تحریکِ انصاف اور اس کی اتحادی جماعتوں نے صادق سنجرانی کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔

قائد ایوان سینیٹ شبلی فراز نے دعویٰ کیا کہ عدم اعتماد کی قرارداد کو ناکام بنانے کی حکومت کی حکمت عملی تیار ہے اور اپوزیشن جماعتوں کو قرار داد پر ووٹنگ کے نتیجے میں سرپرائز ملے گا۔

خیال رہے کہ صادق سنجرانی کو پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے مشترکہ طور پر چیئرمین سینیٹ منتخب کروایا تھا۔ تاہم، اب پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر انہیں ہٹانے کے لیے سرگرم ہے۔

چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو مستعفی ہونے کا مشورہ دیا جسے صادق سنجرانی نے مسترد کر دیا تھا۔

خیال رہے کہ یہ ملکی تاریخ میں پہلی بار ہے کہ چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کے لیے عدم اعتماد کی قرار داد پیش کی گئی ہے۔

میر حاصل بزنجو کون ہیں؟

میر حاصل بزنجو بلوچستان کے سابق گورنر میر غوث بخش بزنجو کے صاحبزادے ہیں اور ان کی پیدائش 1958 میں بلوچستان کے ضلع خضدار میں ہوئی۔

1970 کی دہائی میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے سیاست کا آغاز کرنے والے حاصل بزنجو 1990 کے انتخابات میں پہلی بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ 1996 میں پاکستان نیشنل پارٹی کے صدر منتخب ہوئے اور 1997 کے عام انتخابات میں دوسری بار قومی اسمبلی کا انتخاب جیتا۔

2008 کے عام انتخابات کے بائیکاٹ کے بعد 2009 میں پہلی بار جب کہ 2015 میں دوسری بار سینیٹر منتخب ہوئے۔ وہ اتحادی کے طور پر نواز شریف کابینہ میں بھی شامل رہے۔

2002 میں ان کی پارٹی اور بلوچ نیشنل تحریک کا الحاق ہوا اور نیشنل پارٹی کی بنیاد رکھی گئی، جس کے بعد 2014 میں حاصل بزنجو اس کے صدر منتخب ہوئے۔

بلوچ عوام کے حقوق کا علمبردار سمجھے جانے والے میر حاصل بزنجو بحالی جمہوریت کی ایم آر ڈی تحریک میں شریک رہے اور سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں حکومت مخالف تقاریر کرنے کے جرم میں قید بھی کاٹ چکے ہیں۔

معتدل سیاست دان

تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اپوزیشن جماعتوں کا یہ اچھا اقدام ہے کہ انہوں نے چھوٹے صوبے اور چھوٹی جماعت سے چیئرمین سینیٹ کا امیدوار نامزد کیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میر حاصل بزنجو معتدل سیاست کی حامل شخصیت ہیں جو اپنے والد میر غوث بخش بزنجو کی سیاست کو لے کر چل رہے ہیں۔

سہیل وڑائچ نے کہا کہ اپوزیشن کے مقابلے میں حکومت نے بھی اپنی حکمت عملی بنا رکھی ہو گی اور اگر حاصل بزنجو چیئرمین سینیٹ منتخب ہو جاتے ہیں تو یہ حکومت کے لیے بہت بڑی سیاسی شکست ہو گی جس سے آگے کئی راستے نکلیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان جیسے معاشروں میں حکومت کو ہرانا آسان نہیں ہوتا اور ماضی میں ایسے چند ہی واقعات ہیں جب حکومت کے خلاف اس قسم کی کوئی تحریک کامیاب ہوئی ہو کیونکہ لوگوں کی کمزوریاں، مفادات اور لالچ ہوتے ہیں اور حکومت کے پاس ان افراد کو مطمئن کرنے کے لیے بہت کچھ ہوتا ہے۔

XS
SM
MD
LG