رسائی کے لنکس

خواتین کو سماجی میڈیا پر ہراساں کرنے کے واقعات میں اضافہ: رپورٹ


پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کا کہنا ہے کہ ملک میں سماجی میڈیا خاص طور پر فیس بک استعمال کرنے والی خواتین کی ایک بڑی تعداد کو مردوں کی طرف سے ہراساں کیا جارہا ہے۔

یہ بات ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن پاکستان کی طرف سے حال ہی میں جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں بتائی گئی ہے۔

تنظیم کی سربراہ نگہت داد نے جمعہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہوں ںے یہ رپورٹ ملک کی17 یوینورسٹیوں میں زیر تعلیم طالبات سے پوچھے گئے سوالات کے بعد مرتب کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سروے میں لگ بھگ چودہ سو سے زائد طالبات نے شرکت کی تھی۔

نگہت داد نے کہا ان طالبات میں سے ایک بڑی تعداد ایسی تھی جنہیں یہ معلوم نہیں کہ پاکستان میں خواتین کو آن لائن ہراساں کرنے کے بارے میں کوئی قانون موجود ہے یا نہیں۔

"جن لڑکیوں نے اس سروے میں حصہ لیا ان میں سے 82 فیصد کو یہ معلوم نہیں تھا کہ پاکستان میں (خواتین کو ) ہراساں کرنے کے بارے میں کوئی قانون موجود ہے۔ جو سائبر کرائمز کا قانون ہے وہ پچھلے سال بنا تھا اور اس سے پہلے ملک میں پہلے سے موجود مختلف قوانین کے تحت انٹرنیٹ پر ہراساں کرنے کے واقعات سے نمٹا جاتا تھا۔"

انہوں نے کہا کہ وہ خواتین جن کو ہراساں کیا جاتا ہے سائبر کرائمز کا قانون ان کو تحفظ فراہم کرنے میں معاون ہو سکتا ہے۔

" اس قانون میں جو شقیں ہراساں کرنے سے متعلق ہیں وہ لڑکیوں اور خواتین کے لیے فائدہ مند ہو سکتی ہیں ان میں اگر کوئی آپ کی تصاویر کو آپ کے استحصال کے لیے استعمال کرتا ہے یا کوئی آپ کی اجازت کے بغیر تصویر کو (فیس بک یا سماجی میڈیا) پر پوسٹ کرتا ہے تو اس قانون کے مطابق اس کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔"

دوسری طرف انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’بائیٹس فار آل‘ سے وابستہ فرحان حسین نے خواتین سے متعلق آن لائن منفی رویوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارے سماجی رویوں کی عکاسی کرتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ "سماجی میڈیا پر لوگوں کے جو رویے نظر آتے ہیں وہ ان رویوں سے مختلف نہیں جو (عموماً) سماج میں پائے جاتے ہیں۔"

نگہت داد کا کہنا ہے کہ اُن کی تنظیم کو انٹرنیٹ استعمال کرنے والے کی مدد کے لیے قائم کی جانے والے ہیلپ لائن پر جو شکایت موصول ہوتی ہیں، ان میں ساٹھ فیصد سے زائد تعداد خواتین کی ہوتی ہے۔

XS
SM
MD
LG