اسلامی ممالک کی تنظیم ’او آئی سی‘ کا غیر معمولی سربراہی اجلاس ترکی کے شہری استنبول میں جاری ہے جس میں یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے امریکی فیصلے سے پیدا ہونے والی صورتِ حال پر غور کیا جارہا ہے۔
اجلاس ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے ’او آئی سی‘ کے موجودہ صدر کی حیثیت سے طلب کیا ہے جس میں تنظیم کے 57 رکن ملکوں میں سے کئی کے سربراہانِ مملکت یا حکومت شریک ہیں۔
سربراہی اجلاس کے آغاز سے قبل بدھ کی صبح تنظیم کے رکن ملکوں کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا جس میں سربراہی اجلاس کے ایجنڈے کو حتمی شکل دی گئی۔
یروشلم کو اسرائیل کو دارالحکومت تسلیم کرنے کے امریکی انتظامیہ کے فیصلے کے بعد مسلمان ممالک بشمول ترکی اور پاکستان کی طرف سے شدید ردِ عمل سامنے آیا ہے اور کئی مسلم ملکوں میں امریکہ کے اس اقدام کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
گزشتہ ہفتے کے اختتام پر خلیجی ممالک کی تنظیم ’عرب لیگ‘ نے بھی اپنے ایک اجلاس میں امریکہ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ یروشلم سے متعلق اپنا فیصلہ واپس لے۔
وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ وزیرِ خارجہ خواجہ آصف بھی اُن کے ہمراہ ہیں۔
پاکستان کی حکومت پہلے ہی امریکہ سے اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کا مطالبہ کرچکی ہے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے سے عالمی امن خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کی کوششوں کو دھچکا لگے گا۔
رواں ہفتے پاکستان کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ نے بھی امریکی صدر کے فیصلے کے خلاف مذمتی قرار داد منظور کی تھی۔
امریکہ پہلا ملک ہے جس نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے اپنا سفارت خانے تل ابیب سے وہاں منتقل کرنے کا اعلان کیا ہے۔
امریکہ کے صدر ٹرمپ اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے یہ کہہ چکے ہیں کہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے سے فلسطین اور اسرائیل کے دو ریاستی حل پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور امریکہ دونوں کو قابلِ قبول حل پر آمادہ کرنے کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کرنے کے عزم پر قائم ہے۔