رسائی کے لنکس

پیرس معاہدے پر کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی: اوباما


سابق امریکی صدر براک اوباما گلاسگو میں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے۔
سابق امریکی صدر براک اوباما گلاسگو میں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے۔

امریکہ کے سابق صدر براک اوباما نے پیر کو گلاسگو میں اقوامِ متحدہ کی جانب سے منعقدہ موسمیاتی تبدیلی کے اجلاس کو بتایا کہ زیادہ تر ملک 2015ء کے پیرس کے موسمیاتی تبدیلی کے سمجھوتے سے متعلق وعدے پورے کرنے میں ناکام رہے ہیں، اور ٹھوس کام کے لحاظ سے موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے کام کی جانب جاتے ہوئے بھی دکھائی نہیں دیتے۔

سابق صدر اجلاس کے دوسرے ہفتے کی کارروائی سے خطاب کر رہے تھے، جو 'سی او پی 26 'کے نام سے منسوب ہے۔

اوباما نے کہا کہ پیرس کانفرنس اور اس کے بعد طے ہونے والا سمجھوتا اس بات کا مظہر تھا کہ کیا کچھ کیا جانا ہے اور کیسے کیا جانا ہے، تاکہ موسمیاتی تبدیلی کے بحران کے چیلنج سے مؤثر طور پر نبردآزما ہوا جا سکے۔ لیکن، زیادہ تر ملک اتنے سرگرم دکھائی نہیں دیے جتنا کہ ان کو ہونا چاہئے تھا۔

اوباما کے بقول، ''بحرانی صورت حال سے نمٹنے اور بڑھ چڑھ کر چیلنج کا مقابلہ کرنے کا جذبہ جس کی چھ سال قبل توقع کی جارہی تھی، اسے یکسوئی سے نہیں نبھایا گیا''۔

انھوں نے اس بات کو ''خاص طور پر حوصلہ شکن'' قرار دیا کہ چین اور روس کے سربراہان، جو سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا کرنے والے ملک ہیں، انھوں نے اس اجلاس میں شرکت تک سے انکار کیا ہے، اور دونوں ملکوں نے، بقول ان کے، یہ ثابت کر دیا ہے کہ انھیں موسماتی تبدیلی کے خطرے کی اہمیت سے کوئی دلچسپی نہیں ہے''۔

چین کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس کے صدر شی جن پنگ نے گزشتہ ہفتے دیگر ملکوں پر زور دیا تھا کہ موسمیاتی اہداف کے حصول کے لیے اقدام کریں جس کے لیے تعاون کا ہاتھ بڑھایا جائے۔ یہ بیان تحریری طور پر اجلاس کو بھیجا گیا تھا۔

أوباما نے کہا کہ اس کام میں امریکہ اور یورپ کی جدید معیشتوں کو قیادت کرنی چاہیے، لیکن چین، روس اور بھارت کو بھی یہی کچھ کرنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ ''یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم میں سے کوئی باہر بیٹھ کر محض تماشہ دیکھے''۔

نوجوانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے، اوباما نے ان کی حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ ''آپ اس پر رائے دہی میں اس زور و شور سے حصہ لیں جیسا کہ آپ کی زندگی کا دارومدار ہی اسی پر ہے، چونکہ ایسا ہی ہے''۔ انھوں نے کہا کہ نوجوان سیاستدانوں کے منافقانہ طرز عمل کو خوب سمجھتے ہیں۔ تاہم، دنیا بھر کی حکومتیں تب تک کوئی اقدام نہیں کریں گی جب تک ووٹروں کی جانب سے ان پر دباؤ نہیں ڈالا جائے گا۔

موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اقوام متحدہ کا یہ چھبیسواں اجلاس ہے، اور 2015ء کے پیرس کے موسیمات سے متعلق معاہدے کے بعد یہ ان کی پہلی تقریر تھی،جب شریک ملکوں نے روایتی ایندھن کے استعمال اور زراعت کے نتیجے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو تیزی سے کم کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا تھا، تاکہ تپش کو تباہ کُن سطح تک پہنچنے سے روکا جا سکے۔

تب سے آج تک موسمیات پر ہونے والے سربراہ اجلاس اتنے نتیجہ خیز نہیں رہے، خصوصی طور پر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تو پیرس معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ منتخب ہونے کے بعد صدر جوبائیڈن نے پھر سے اس میں شمولیت اختیار کی ہے۔ گزشتہ ہفتے بائیڈن نےگلاسگو اجلاس میں شرکت کرتے ہوئے جرات مندانہ فیصلوں کا اعلان کیا۔ چین کے بعد، امریکہ گرین ہاؤس گیس کا اخراج کرنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔

[اس خبر میں شامل کچھ مواد ایسو سی ایٹڈ پریس، رائٹرز اور ایجنسی فرانس پریس سے لیا گیا ہے]

XS
SM
MD
LG