امریکہ کے صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ "میں اس ملک پر یقین رکھتا ہوں، مجھے امریکی عوام پر اعتماد ہے۔ مجھے یقین ہے کہ برے لوگوں کی نسبت اچھے لوگ زیادہ ہیں۔"
اپنی آخری نیوز کانفرنس میں صدر نے ایک سوال جواب میں کہا کہ وہ بھی بعض اوقات ہر شخص کی طرح پریشان ہو جاتے ہیں تاہم انہوں نے کہا کہ "میرادل کہتا ہے اور میرے خیال میں ہم (ایک ملک کے طور پر) ٹھیک رہیں گے۔ ہمیں اس کے لیے جدوجہد کرنی ہو گی۔"
صدر اوباما نے کہا کہ وہ میننگ کو معافی دینے اور دوسری طرف امریکہ کے صدارتی انتخاب کی مہم میں روسی ہینکنگ کی مذمت کرنے کے معاملے کے مابین کوئی تضاد نہیں دیکھتے ہیں۔
اوباما نے کہا کہ انہوں نے جوہری ہتھیاروں کی تخفیف کے بارے میں بارے میں روس کو قائل کرنے کی کوشش کی، لیکن ان کے بقول روسی صدر ولادیمر پوٹن اس معاملے پر بات کرنے سے احتراز کیا، تاہم صدر اوباما نے اس امید کا اظہار کیا کہ نئے صدر جوہری اسلحہ کی تخفیف کے معاملے پر پیش رفت کر سکتے ہیں۔
دنیا میں امریکہ کے کردار سے متعلق سوال پر صدر نے کہا کہ کرائمیا پر روس کے قبضہ کے بعد ان پر عائد کی جانے والی تعزیرات امریکہ کے "اہمکردار کی ایک اچھی مثال ہے"۔ انہوں نے اس توقع کا اظہار بھی کیا کہ نئی انتظامیہ بھی طاقتور ملکوں کی طرف سے کمزور ممالک کے خلاف " دھونس " کو روکنے کا کام کر جاری رکھیں گی۔
صدر اوباما نے فوج کی انٹیلی جنس تجزیہ کار چیلسیی میننگ کی قید کی سزا میں کمی کے اقدام کا دفاع کیا ہے۔
بدھ کے روز اپنی میعاد کی تکمیل پر الوادعی اخباری کانفرنس سے خطاب میں اوباما نے کہا کہ ’’تمام صورتِ حال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، اُن (میننگ) کی سزا میں کمی لانا بالکل مناسب اقدام ہے‘‘۔
اخباری نمائندوں سے خطاب سے کچھ ہی دیر قبل اوباما نے سابق صدر جارج ایچ ڈبلیو بش اور اُن کی بیگم باربرا کو نیک تمناؤں اور تیزی سے صحتیابی پر مبنی خواہش کا پیغام بھیجا۔
دونوں ہی ٹیکساس کے ایک اسپتال میں داخل ہیں، جن کی علالت کا سبب موسم سرما کی شدت ہے جب کہ سابق صدر انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل ہیں۔
اوباما نے ذرائع ابلاغ کے پیشہ ورانہ کام پر شکریہ بھی ادا کیا، سبکدوش ہونے والے صدر نے کہا ہے کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ امریکی میڈیا ایک منصفانہ اور متوازن فرض انجام دے رہا ہے۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ امریکی جمہوریت میں ذرائع ابلاغ ایک اہم کردار انجام دیتا رہا ہے۔
وائٹ ہاؤس میں آٹھ برس کے قیام کے بعد، اوباما جمعے کے روز دفتر سے روانہ ہوں گے، جب کہ اُسی روز منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی ذمہ داری سنبھالیں گے، جب وہ امریکی کانگریس کی عمارت کے سامنے منعقدہ تقریب میں ملک کے پینتالیسویں صدر کے طور پر حلف لیں گے۔
اوباما کا تعلق ڈیموکریٹ پارٹی سے ہے، جو صدارتی مہم کے دوران ری پبلیکن پارٹی کے ڈونلڈ ٹرمپ کے شدید مخالف رہ چکے ہیں، جب اُنھوں نے ارب پتی جائیداد کے کاروباری فرد جو سیاست کے میدان میں نؤ وارد ہیں کے لیے کہا تھا کہ وہ طبیعتاً امریکی کمانڈر اِن چیف کے طور پر خدمات انجام دینے کے لیے موزوں نہیں۔
تاہم انتخاب کے بعد اوباما کی ٹرمپ سے ملاقات ہو چکی ہے، جب کہ اُن کی منتخب صدر کے ساتھ متعدد بار گفتگو بھی ہوئی اور دونوں نے اقتدار کی پُرامن منتقلی کے لیے کام کیا ہے۔
تاہم، ایسے میں جب ٹرمپ عہدہٴ صدارت سنبھالنے کے قریب ہیں، دونوں رہنماؤں کے مابین تناؤ دیکھا جا رہا ہے، خاص طور پر تب جب ٹرمپ نے اوباما کے بہت سے انتظامی اقدام کو منسوخ کرنے کا عہد کیا اور کہا کہ وہ کانگریس کی منظوری سے اوباما کی ہیلتھ کیئر اصلاحات کے قانون کو ختم کر دیں گے۔
پچپن برس کی عمر میں اوباما اب تک عہدہٴ صدارت میں فائز ہونے والے زیادہ تر امریکی صدور سے کم عمر ہیں۔
صدر رہنے کے بعد، مستقبل کے بارے میں وہ واضح نہیں حالانکہ عین ممکن ہے کہ وہ اپنی یادداشتیں تحریر کریں یا ریاستوں کی سطح پر نشستوں کی جیت کی تگ و دو میں وہ سیاسی میدان میں ڈیموکریٹس کی مدد کا سوچ رہے ہوں، تاکہ پھر سے واشنگٹن کے سیاسی افق پر اُبھر سکیں، جہاں اب ری پبلیکنز کو کانگریس کے دونوں ایوانوں میں اکثریت حاصل ہے۔
جب کہ دو دِنوں کے اندر وہ وائٹ ہاؤس کی قیادت سنبھال چکے ہوں گے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اوباما گولف کے کھیل میں مزید دلچسپی لیں، جو اُن کا پسندیدہ مشغلہ رہا ہے۔