رسائی کے لنکس

سائنس کی تاریخ کی اہم ترین پیش رفت: فیوژن ری ایکشن سے توانائی پیدا کرنے میں کامیابی


فیوژن ری ایکشن سے توانائی پیدا کرنے کے حامیوں کا خیال ہے کہ اس سے مستقبل میں کاربن کے اخراج کے بغیر لامحدود مقدار میں توانائی پیدا کی جا سکے گی۔
فیوژن ری ایکشن سے توانائی پیدا کرنے کے حامیوں کا خیال ہے کہ اس سے مستقبل میں کاربن کے اخراج کے بغیر لامحدود مقدار میں توانائی پیدا کی جا سکے گی۔

امریکہ میں منگل کے روز سائنس دانوں نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے ایک جوہری فیوژن ری ایکشن کے دوران، اس ری ایکشن پر خرچ ہونے والی توانائی سے کہیں زیادہ توانائی پیدا کر لی ہے۔ سورج میں جس جوہری ری ایکشن سے کثیر مقدار میں توانائی خارج ہوتی ہے، اس عمل کو فیوژن کہا جاتا ہے۔ سائنس دان طویل مدت سے اس عمل کے ذریعے زمین پر توانائی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ جس کی وجہ سے وہ اسے ایک عظیم کامیابی قرار دے رہے ہیں۔

امریکہ کے توانائی کے محکمے نے ایک بیان میں بتایا ہے کہ کیلی فورنیا میں قائم لارنس لورمور نیشنل لیبارٹری نے وہ سنگ میل عبور کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے جسے ’نیٹ انرجی گین‘ کہتے ہیں۔ نیٹ انرجی گین ایک سائنسی اصطلاح ہے اور اس سے مراد کسی بھی عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے جتنی توانائی درکار ہوتی ہے، اس عمل کے نتیجے میں خرچ کی جانے والی توانائی سے زیادہ توانائی پیدا ہو جائے۔

دنیا میں بظاہر ایسا کم کم ہی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ہم گاڑی چلانے کے لیے جب اس میں پیٹرول ڈالتے ہیں تو اس پیٹرول سےجتنی توانائی پیدا ہوتی ہے اس کے بدلے میں ہمیں گاڑی چلانے کے لیے اتنی توانائی حاصل نہیں ہوتی۔ دنیا کی تقریباً ہر مشین میں ہم زیادہ توانائی خرچ کر کے کم توانائی حاصل کرتے ہیں۔ لیکن ہمیں فائدہ یہ ہے کہ ہم اس طرح توانائی کو ایک شکل سے دوسری شکل میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ اگر ہم گاڑی کی مثال سامنے رکھیں تو پیٹرول کی توانائی کو گاڑی چلانے کی توانائی میں تبدیل کر دیتے ہیں۔

نیٹ انرجی گین کا ہدف اس سے پہلے بہت مشکل سمجھا جاتا تھا کیونکہ فیوژن ری ایکشن کرنے کے لیے بہت زیادہ مقدار میں توانائی درکار ہوتی ہے اور یہ ری ایکشن شدید گرم درجہ حرارت میں عمل میں آتا ہے۔

فیوژن ری ایکشن کے دوران ہائیڈروجن کے ایٹمز کو نہایت تیز رفتار سے آپس میں ٹکرایا جاتا ہے، جس سے ہیلئیم کا ایٹم پیدا ہوتا ہے، اس عمل کے دوران ہائیڈروجن کا کچھ مادہ بچ جاتا ہے جو فنا ہو کر توانائی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یاد رہے کہ مادے کے فنا ہونے سے کثیر مقدار میں توانائی خارج ہوتی ہے۔ سورج پر بھی یہی نیوژن ری ایکشن ہو رہا ہے اور توانائی کی کثیر مقدار پیدا ہو رہی ہے۔ یہ عمل اربوں برسوں سے جاری ہے اور مزید اربوں سال تک جاری رہنے کا امکان ہے۔

ایٹم بم سے بڑے پیمانے پر تباہی اس لیے ہوتی ہے کہ ایٹم توڑنے سے لا محدود مقدار میں توانائی خارج ہوتی ہے جس سے بڑے پیمانے پر ہر چیز کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔ایٹم بم کے عمل میں یورینیم کا استعمال ہوتا ہے جس سے تابکار مادے بھی پیدا ہو جاتے ہیں جو سینکڑوں برسوں تک تابکاری پھیلاتے رہتے ہیں۔جب کہ ہائیڈروجن کے عمل میں تابکاری پھیلانے والا فضلہ پیدا نہیں ہوتا۔

امریکہ کی توانائی کی وزیر جینیفر گران ہولم اور انتظامیہ کے دیگر حکام نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ اہم سنگ میل کے حاصل کرنے سے ملک کے دفاع اور مستقبل میں صاف توانائی کے حصول میں بہتری نظر آئے گی۔

گران ہولم نے واشنگٹن میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ اس تجربے سے ہمیں ان حالات کو پیدا کرنے میں مدد ملی جو صرف ستاروں اور سورج میں پائے جاتے ہیں۔

گران ہولم نے کہا کہ یہ فیوژن ری ایکشن اکیسویں صدی میں سائینس کی ایک بڑی جیت ہے جس کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں آئے گا۔
گران ہولم نے کہا کہ یہ فیوژن ری ایکشن اکیسویں صدی میں سائینس کی ایک بڑی جیت ہے جس کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں آئے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کامیابی سے ہم کاربن کے اخراج کے بغیر بڑی مقدار میں فیوژن سے پیدا ہونے والی توانائی پر کام کرنے والا سماج بنانے میں ایک قدم مزید آگے بڑھے ہیں۔

گران ہولم نے کہا کہ یہ فیوژن ری ایکشن اکیسویں صدی میں سائنس کی ایک بڑی جیت ہے جس کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں آئے گا۔

فیوژن ری ایکشن سے توانائی پیدا کرنے کے حامیوں کا خیال ہے کہ اس سے مستقبل میں کاربن کے اخراج کے بغیر لامحدود مقدار میں توانائی پیدا کی جا سکے گی۔ جس سے پیٹرولیم اور دیگر معدنی ذرائع سے توانائی حاصل کرنے کے روایتی طریقوں سے چھٹکارہ پانے میں مدد ملے گی۔ کیونکہ اس سے سے بڑی مقدار میں کاربن گیسیں خارج ہوتی ہیں، جس سے دنیا کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اور آب و ہوا کی تبدیلی میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق فیوژن کی توانائی سے بجلی پیدا کر کے اسے دنیا بھر میں گھروں اور کاروباروں تک پہنچانے میں ابھی عشرے لگیں گے۔

لاس اینجلس آٹو شو: ہائی ٹیک گاڑیوں کی نقاب کشائی
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:25 0:00

بعض محققین کا کہنا ہے کہ یہ صاف توانائی کی جانب ایک قدم ہے، اگرچہ کہ ابھی منزل بہت دور ہے۔

امریکہ کی ایم آئی ٹی یونیورسٹی میں پلازما سائنس اینڈ فیوژن سینٹر کے ڈائریکٹر اور اس شعبے کے ماہر پروفیسر ڈینس وہائٹ نے اسے طویل دوڑ کے آغاز میں پہلے قدم سے مشابہ قرار دیا۔ ان کے بقول ہمیں فیوژن توانائی کے نظام تک رسائی اور اسے موسمیاتی تبدیلی کو قابو کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہئے۔

لورمور لیب کی ڈائریکٹر کم بوڈل کا کہنا تھا کہ فیوژن کے عمل سے کمرشل بنیادوں پر توانائی کے حصول میں ابھی بہت سی رکاوٹیں موجود ہیں۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ یہ ٹیکنالوجی اگلے چند عشروں میں بہت بڑے پیمانے پر استعمال کی جائے گی۔ اس سے پہلے خیال کیا جا رہا تھا کہ ایسا ہونے میں ابھی50 سے 60 برس لگیں گے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے اس خبر کو تحقیق اور ترقی پر سرمایہ کاری کی ضرورت کی بہترین مثال قرار دیا۔

اس خبر کے لیے مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا۔

XS
SM
MD
LG