شمالی کوریا نے بدھ کے روز کم فاصلے تک ہدف کو نشانہ بنانے والے بیلسٹک میزائل کا تجربہ کیا ہے۔ یہ ایک ہفتے کے دوران کیا گیا یہ دوسرا میزائل تجربہ ہے۔
میزائل تجربات ایک ایسے وقت میں کیے جا رہے ہیں جب جوہری پروگرام سے متعلق مذاکرات میں وقفہ آیا ہے۔
جنوبی کوریا کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف نے دعوی کرتے ہوئے کہا ہے کہ شمالی کوریا نے مشرقی بندرگاہ وانسان کے قریب یہ حالیہ میزائل تجریہ کیا۔
جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کا مزید کہنا تھا کہ میزائل 250 کلومیٹر تک 30 کلومیٹر کی بلندی پر ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
خیال رہے کہ چھ روز قبل بھی شمالی کوریا نے میزائل تجربہ کیا تھا۔ ان تجربات کو جنوبی کوریا کا امریکہ کے ساتھ مشترکہ جنگی مشقوں اور ہتھیار خریدنے کے فیصلے کا رد عمل قرار دیا جا رہا ہے۔
بدھ کو جس بیلسٹک میزائل کا تجربہ کیا گیا فوری طور پر اس کی نوعیت کا اندازہ نہیں ہوسکا ہے۔ شمالی کوریا نے چھ روز قبل کم فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل 'اسکندر' کا تجربہ کیا تھا۔
شمالی کوریا کے تجربات کو امریکہ اور جنوبی کوریا پر مستقل دباؤ برقرار رکھنے کا عمل قرار دیا جا رہا ہے۔ پیانگ یانگ اس بات کی بھی کوشش کر رہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ جوہری تجربات سے متعلق مذاکرات مکمل طور پر متاثر نہ ہوں۔
خیال رہے کہ پناگ یانگ کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ اور جنوبی کوریا رواں برس طے شدہ فوجی مشقیں کرتے ہیں تو شمالی کوریا بین البراعظمی بیلسٹک میزائل اور جوہری تجربات دوبارہ شروع کر سکتا ہے۔
شمالی کوریا کا مزید کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ 'ورکنگ لیول جوہری مذاکرات' شروع نہ کرے۔
'صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہیں'
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس تجربے پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔ لیکن پچھلے ہفتے کم فاصلے تک مار کرنے والے میزائل کے تجربے پر ان کا موقف ضرور سامنے آیا تھا۔
بدھ کے میزائل تجربے پر شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان کا نام لیے بغیر صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ میرے ان کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ مجھے وہ پسند ہیں۔ وہ مجھے پسند کرتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔
اقوام متحدہ کے حکام نے نام ظاہر کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شمالی کوریا کے میزائل تجربات سے آگاہ ہیں۔ تمام صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قرارداد کے مطابق شمالی کوریا بیلسٹک تجربات نہ کرنے کا پابند ہے۔ واشنگٹن اور سیول اب شمالی کوریا کے میزائل تجربات کو کم اہمیت دے رہے ہیں تاکہ پیانگ یانگ کے ساتھ جوہری تجربات سے جاری رہے ہیں۔
سیول کی یونیورسٹی کے پروفیسر لیف ایریک ایسلے کا کہنا ہے کہ یہ مناسب نہیں کہ کم فاصلے تک ہدف بنانے والے میزائل تجربات کو نظر انداز کر دیا جائے۔ یہ تجربات میزائل ٹیکنالوجی میں بہتری کا حصول ہی ہے جو امریکہ کی ایشیا میں موجود فوج اور اس کے اتحادیوں کے لیے خطرہ ہیں۔
ٹرمپ اور کِم کی گزشتہ ملاقاتیں
شمالی اور جنوبی کوریا کے غیر فوجی علاقے میں ہونے والی ملاقات کے حوالے سے صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ ان کے اور کِم جونگ کے درمیان جون میں طے پایا تھا کہ وفود کی سطح پر مذاکرات دوبارہ سے شروع کیے جائیں گے۔
وائٹ ہاؤس کے حکام نے دونوں رہنماوں کی ملاقات کو ایک بڑی پیش رفت قرار دیا تھا۔
شمالی کوریا جوہری پروگرام کو ختم کرنے کے جزوی اقدامات کے بدلے میں بین الاقوامی پابندیوں میں نرمی کا خواہاں ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کے مکمل خاتمے تک پابندیوں میں نرمی کے حوالے سے ہچکچاہٹ کا شکار رہی ہے۔ تاہم گزشتہ کچھ عرصے میں امریکی حکام نے کچھ لچک دکھائی ہے۔
منگل کو امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائک پومپیو نے کہا تحا کہ امید ہے کہ مذاکرات کے دوبارہ آغاز کے لیے دونوں ممالک کوئی 'تخلیقی حل' نکال لیں گے۔