معروف امریکی روزنامہ نیویارک ٹائمز کے ملازمین نے جمعرات کو 24 گھنٹے تک ہڑتال کی۔ ملازمین زیادہ اجرت اور بہتر فوائد کا مطالبہ کر رہے تھے کیونکہ 20 ماہ سے زیادہ عرصے سے جاری مذاکرات کے بعد بھی کوئی معاہدہ نہیں ہو سکا ہے۔
گیارہ سوسے زیادہ رپورٹروں ، ایڈیٹروں، فوٹوگرافروں اور عملے کے دیگر ارکان نے سڑکوں پر نکل کر مظاہرہ کیا جس میں انہوں نے بینر اٹھائے تھے جن پر لکھا تھا ’نیو یارک ٹائمز واک آؤٹ‘ ۔ 40 برسوں سے زائد عرصے میں اخبار کا یہ سب سے بڑا لیبر تنازعہ رہا ہے۔
روزنامہ نیو یارک ٹائمز عملے کی ایک رکن اور یونین ممبر جن کا پہلا نام ایلا ہے اور انہوں نے اپنا پورا نام نہیں بتایا ،کہتی ہیں کہ انتظامیہ کو معاہدہ جلد طے کرنے کی کوئی فکر اور پروا نہیں ہے ۔ انہوں نے پچھلے ہفتے اس کے بعد کچھ رعایتیں دیںے کا اعلان کیا تھا جب انہیں معلوم ہوا کہ کارکن مظاہرہ کرنے والے ہیں۔لیکن انہوں نے اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی ایسا ٹھوس اقدام نہیں کیا جو ہمارے لیے بہت اہم ہے، یعنی معاوضہ اور اجرتیں۔
ایلا نے کہا کہ اگر کوئی معاہدہ نہ ہوا تو یونین انتظامیہ پر اپنا دباؤ برقرار رکھے گی۔
دوسری جانب اخبار کے ان کارکنوں اور عملے کے ارکان نے، جو یونین کے رکن نہیں ہیں اپنا کام جاری رکھا اور ہڑتال میں شریک نہیں ہوئے۔
نیویارک ٹائمز کے ترجمان ڈینیئل رہوڈیز ہا نے بتایا کہ کمپنی کی انتظامیہ اس وقت بھی مذاکرات جاری رکھے ہوئے تھی جب اسے یہ بتایا گیا کہ کارکن ہڑتال پر چلے گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک ایسے موقع پر انتہائی قدم اٹھانا بہت مایوس کن ہے۔
انتظامیہ کا کہنا ہے کہ کمپنی اجرتوں میں ساڑھے پانچ فی صد اضافہ کرنے اور اگلے دو سال کے دوران مزید تین فی صد بڑھانے پر تیار ہے جب کہ یونین اگلے دو برسوں کے لیے بھی ساڑھے پانچ فی صد اضافے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
نیویارک ٹائمز کو حالیہ عرصے میں مختصر دورانیے کی کام چھوڑ ہڑتال کا سامنا رہا ہے۔ اس سے قبل نیویارک ٹائمز کے کارکنوں کی سب سے بڑی ہڑتال 1978 میں ہوئی تھی جو 88 دن تک جاری رہی تھی۔
نیویارک ٹائمز سے خبریں اور مضامین امریکہ اور دنیا بھر میں اس کے 90 لاکھ سے زیادہ صارفین تک پہنچتے ہیں۔
اس رپورٹ کے لیے کچھ تفصیلات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں۔