رسائی کے لنکس

پرویز خٹک کا نئی سیاسی جماعت ’پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز‘ کے قیام کا اعلان


سابق وزیرِاعلٰی خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے پاکستان تحریکِ انصاف پارلیمینٹرینز کے نام سے نئی سیاسی جماعت بنا لی ہے۔

پیر کو نوشہرہ میں ایک اجلاس کے دوران پرویز خٹک نے نئی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کیا۔ سابق وزیرِاعلٰی محمود خان بھی نئی پارٹی میں شامل ہو گئے ہیں۔

اجلاس کے دوران نئی جماعت کے سفید اور سبز رنگ پر مشتمل جھنڈے کی رونمائی بھی کی گئی۔

پرویز خٹک کے آبائی شہر نوشہرہ کے ایک نجی شادی ہال میں طلب کردہ یہ اجلاس نہایت سخت سیکیورٹی میں کیا گیا۔ شادی ہال کے ارد گرد بلکہ شہر سے شادی ہال تک جانے والی سڑکوں پر سادہ کپڑوں میں ملبوس خفیہ اور سیکیورٹی اداروں کے اہلکار بڑی تعداد میں تعینات کیے گئے۔

ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو کوریج کی اجازت نہیں دی گئی۔

پشاور میں ڈان نیوز کے بیورو چیف علی اکبر کے بقول صحافیوں کو نہ صرف شادی ہال جانے سے روک دیا بلکہ بعض سے موبائل فونز بھی چھین لیے گئے۔

اجلاس کی اندرونی کارروائی کے بارے میں ابھی تک تفصیلات حاصل نہیں ہوسکی مگر پرویز خٹک کے قریبی حلقوں نے خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں سے پی ٹی آئی سے منسلک سابق اراکین اسمبلی کے لگ بھگ 57 افراد کی شمولیت کا دعویٰ کیا ہے۔

پشاورسے سابق ممبر قومی اسمبلی شوکت علی بھی اس اجلاس میں شریک تھے جب کہ بونیر سے سابق رُکن قومی اسمبلی شیر اکبر از خود موجود نہیں تھے مگر ان کی نمائندگی بیٹے شہزاد اکبر نے کی۔

جیل سے اجلاس میں شرکت

قبائلی ضلع خیبر سے ولسن وزیر، ڈیرہ اسماعیل خان سے احتشام جاوید اکبر اور دیگر بھی نئی پارٹی میں شامل ہو گئے۔

ہفتے کو ضمانت قبل از گرفتاری منسوخ ہونے کے بعد گرفتار کیے جانے والے دو سابق اراکینِ صوبائی اسمبلی ملک واجد اللہ اور ارباب محمد وسیم بھی اس اجلاس میں شریک تھے۔ دونوں کو پیر کو ہی عدالت نے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔

پرویز خٹک نے نو مئی کے واقعات کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے وجود سے ہی ہم سب کا وجود ہے۔ پرویز خٹک کی اپیل پر شرکا نے نئی جماعت کے نام اور جھنڈے کی منظوری دی۔

پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ عمران خان کے انقلاب اور ہٹلر کی نازی فورس کی سیاست کا چند لوگوں کو علم تھا، وہ کور کمیٹی اور اہم قائدین کو کبھی اعتماد میں نہیں لیتے تھے۔

اُن کا کہنا تھا کہ عمران خان نے ہمیشہ دوسروں کو چور اور خود کو ایمان دار کہا جب کہ اس میں کوئی صداقت نہیں، ان کی ایمان داری کے پول کھل چکے ہیں۔

پرویز خٹک کے بقول جس عمران خان نے فوجی تنصیبات پر حملوں کے لیے کارکنوں کو ورغلایا آج وہ ان سے قطع تعلقی کر رہے ہیں، ان کو صرف اپنی اور بشریٰ بی بی کی فکر ہے۔

پاکستان تحریکِ انصاف کا ردِعمل

دوسری جانب پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مون سون جاری ہے اور ملک میں ساون کی گھاس کی طرح سیاسی جماعتیں اُگ رہی ہیں۔

ملک کے مقتدر حلقوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے ترجمان کا کہنا تھا کہ میدانِ سیاست میں ان نئی فصلوں کی آب یاری کے چیلنج میں محکمہ زراعت کے اہلکار شب و روز محنت سے ہلکان ہو رہے ہیں۔

جہانگیر ترین کی استحکامِ پاکستان پارٹی (آئی پی پی) اور پرویز خٹک کی پاکستان تحریکِ انصاف پارلیمنٹیرینز (پی ٹی آئی پی) کا ذکر کرتے ہوئے ترجمان نے کہا کہ چند ہفتے پہلے لاہور میں بویا جانے والا استحکام مارکہ بیج گلا سڑا نکلا جو فصل بننے سے پہلے ہی خاک میں مل گیا۔ اب خیبر پختونخوا میں پارلیمنٹیرین نامی بیج بھی عوامی ردِ عمل کی پہلی بارش میں ہی بہہ جائے گا۔

پرویز خٹک کا سیاسی سفر

پشاور سے ملحقہ نوشہرہ کے قصبے مانکی شریف میں پیدا ہونے والے پرویز خٹک لاہور کے ایچی سن کالج سے فارغ التحصیل ہیں۔

وہ 1983 کے بلدیاتی انتخابات میں ضلع کونسل پشاور کے ڈپٹی چیئرمین منتخب ہوئے تھے۔ 1987 میں وہ ضلع کونسل کے چیئرمین منتخب ہوئے۔

وہ پہلی بار 1988 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر نوشہرہ سے ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے اور سابق وزیرِاعلی آفتاب احمد خان شیرپاؤ کی کابینہ میں وزیر صنعت بنے۔

وہ 1990 میں وہ کامیاب نہ ہو سکے اور 1993 میں دوبارہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کی نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

وہ 2001 کے بلدیاتی انتخابات میں نوشہرہ کے ضلع ناظم منتخب ہوئے۔

سن 2008 میں وہ پاکستان پیپلزپارٹی شیر پاؤ گروپ کے ٹکٹ پر رُکن اسمبلی منتخب ہوئے تاہم جب پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) نے عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنائی تو پرویز خٹک بھی کابینہ میں شامل ہو گئے۔

سن 2011 میں پاکستان تحریکِ انصاف کی اُٹھان کے بعد پرویز خٹک پی ٹی آئی میں شامل ہونے والوں میں سرِ فہرست تھے۔

سن 2013 کے انتخابات میں خیبرپختونخوا سے پاکستان تحریکِ انصاف کامیاب ہوئی تو اُنہیں وزیرِ اعلٰی نامزد کیا گیا۔

واضح رہے کہ حالیہ ہفتوں میں پنجاب میں استحکامِ پاکستان پارٹی کا قیام عمل میں آیا تھا جس میں تحریکِ انصاف کے کئی رہنما شامل ہوئے تھے۔

رواں برس نو مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونےو الے مظاہروں میں بعض مشتعل افراد کی جانب سے فوجی عمارتوں پر دھاوا بولنے کے واقعات کے بعد پی ٹی آئی کے کئی رہنما ان سے اپنی راہیں جدا کرچکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG