کراچی میں موجود سندھ اسمبلی کی بلڈنگ ’بوڑھی‘ ہوگئی ہے۔ پاکستان کی عمر سے بھی کچھ سال زیادہ۔ سنہ 1942ء کے تیسرے مہینے کی چار تاریخ تھی جب اس وقت کے گورنر ہیوف ڈاوٴ نے اس کا افتتاح کیا تھا۔
جس طرح ایک 72سالہ بوڑھی عورت کمر جھکا کر چلتے ہوئے ایک ہاتھ سے لاٹھی تھامتی اور دوسرے ہاتھ سے جواں سال بیٹے کے کندھے کا سہارا لینے لگتی ہے، ٹھیک اسی طرح سندھ اسمبلی بلڈنگ کو بھی سہارے کیلئے ایک نو عمر عمارت کی ضرورت تھی، سو اسی کے عقب میں2008ء سے زیر تعمیر نئی اور کشادہ عمارت کا اسے آسرا مل گیا ہے۔
گوکہ نئی عمارت کا ابھی باقاعدہ افتتاح نہیں ہوا ہے اور سابق صدر آصف علی زرداری کے لندن سے واپس آنے پر اس کی افتتاحی تقریب ہوگی، لیکن منگل کو ہونے والے اسمبلی سیشن سے اس نے اپنے کام کا آغاز کردیا ہے۔
اگر دیواریں بول سکتیں تو پرانی عمارت وہ تاریخ اپنی زبان سے ضرور دہراتی جو، اب دیمک لگی لکڑی کی الماریوں میں بند بوسیدہ کتابوں کے سینے میں دفن ہے اور جسے کبھی کبھار ہی کوئی ریسرچ کرنے والا پڑھتا ہے۔ باقی لوگوں کے پاس تو اس مادہ پرست دور میں وقت ہی کہاں۔
ناتواں کندھوں والی پرانی عمارت نے اپنی پختہ عمر کی بہاروں میں جانے کتنی سیاسی جماعتوں کا اتار چڑھاوٴ دیکھا ہے۔ سیاسی ایوان ہونے کے سبب انگنت سیاسی چالیں بھی اس کی یادداشت کا حصہ ہوں گی۔ جانے کتنے رہنما تو ایسے ہیں جن کے قدموں کی آہٹ دن رات اس عمارت میں گونجتی ہوگی مگر اب وہی لوگ خاک کی چادر اوڑھے محو خواب ہیں۔
اسی پرانی عمارت میں اس وقت کی اسمبلی نے پاکستان کے حق میں قرارداد بھی منظور کی تھی۔ یوں نئی عمارت کی تعمیر سندھ کی جمہوری تاریخ کا ایک قابل فخر باب رقم کرگئی ہے۔
نئی بلڈنگ میں تزئین و آرائش کا کام تاحال جاری ہے۔ لیکن، منگل کو ہونے والے پہلے سیشن کے لئے عارضی انتظامات کئے گئے تھے۔ سینئر وزیر برائے تعلیم نثار احمد کھہڑو کے مطابق’نئی بلڈنگ کی تعمیر کے لیے بہت پہلے سے سوچا جا رہا تھا۔ اب یہ منصوبہ مکمل ہوگیا ہے۔ 2008ء میں اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا۔ تاہم، اس کے لئے فنڈز کا اجراء 2010ء سے شروع ہوا تھا۔‘
اسپیکر سندھ اسمبلی، سراج درانی کا کہنا ہے کہ اسمبلی ہال میں 350 ارکان کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ انہوں نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو اس عمارت کا باقاعدہ دورہ بھی کرایا۔
نئی بلڈنگ میں 28 وزراء اسمبلی اجلاس کے دوران اپنے دفتری امور انجام دے سکیں گے۔ عمارت میں کئی وسیع و عریض کمیٹی رومز ہیں۔ سیمینار ہالز اور کیفے ٹیریا کی بھی سہولت رکھی گئی ہے، جبکہ صحافیوں اور اجلاس کی کاروائی دیکھنے کے لئے آنے والے مہمانوں کے بھی کشادہ گیلریز موجود ہیں۔
سیشن کے دوران، جب عمارت کی تمام لائٹس روشن ہوئیں تو رنگ برنگی روشنیوں سے ہال کا ماحول گویا سحرزدہ سا ہوگیا۔ ہر چیز اپنی جگہ چمک اٹھی۔
عمارت کی تعمیر پر ساڑھے چار ارب روپے خرچ ہوئے ہیں۔ عمارت کے در و دیوار اور چھتوں پر قرآنی آیات اور شاہ لطیف کا کلام آویزاں ہے۔ ارکان کے بیٹھنے کے لئے نیا اور منفرد سیٹنگ ارینجمنٹ کیا گیا ہے، فانوس، فرنیچر اور دیگر ساز و سامان سب کا سب نہایت شاندار اور قابل دید ہے ۔
اسپیکر آغا سراج خان درانی کے بقول، جلد پرانی بلڈنگ کو میوزیم میں تبدیل کرکے اسے بطور قومی ورثہ محفوظ کرلیا جائے گا۔
نئی عمارت میں ہونے والے پہلے سیشن میں شرکت کی غرض سے آنے والے ارکان، خاص کر خواتین نے نئے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ کئی خواتین نے اجرک کے ڈیزائن والے کپڑے پہنے ہوئے تھے جبکہ مرد ارکان کی اکثریت نے سندھ کی روایتی ٹوپی پہنی ہوئی تھی جس کا مقصد پہلے سیشن کو یادگار بنانا تھا۔
یادوں کو زندہ رکھنے کے لئے ہی تمام ارکان نے ایک دوسرے کی تصاویر بھی بنائیں، جبکہ صحافیوں نے بھی عمارت کے ہر حصے کو کیمرے کے اندر محفوظ کر لیا۔