احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کو چوہدری شوگر ملز کیس میں 14 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کی تحویل میں دے دیا ہے۔
لاہور کی احتساب عدالت میں جمعے کو جب چوہدری شوگر ملز کیس کی کارروائی کا آغاز ہوا تو نیب پراسیکیوٹر اسد اعوان نے نواز شریف کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔ جس پر عدالت نے نواز شریف کو روسٹرم پر بلا لیا۔
نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ چوہدری شوگر ملز کے لیے پیسے آتے رہے ہیں۔ جس کے متعلق شریف فیملی نہیں بتا رہی۔ چوہدری شوگر ملز کے نام پر منی لانڈرنگ بھی ہوئی ہے۔
نیب پراسیکیوٹر نے دوران سماعت عدالت کو مزید بتایا کہ چوہدری شوگر ملز سن 1992 میں قائم کی گی اور نواز شریف سن 1992 میں 43 ملین شئیرز کے مالک تھے۔
چوہدری شوگر ملز میں مریم نواز اور شہباز شریف سمیت شریف فیملی کے دیگر افراد شیئر ہولڈرز تھے۔ نوازشریف نے سن 1992 میں اتنے شئیرز کیسے حاصل کیے، یہ نہیں بتایا جا رہا۔
نیب پراسیکوٹر نے عدالت کو بتایا کہ نوازشریف کو سن 1992 میں ایک کروڑ 55 لاکھ روپے بیرون ملک کی ایک کمپنی نے فراہم کیے۔ اس کمپنی سے متعلق بتایا جا رہا ہے اور نہ اِس کے مالک کے بارے میں۔
نیب پراسیکیوٹر نے عدالت سے درخواست کی کہ نواز شریف سے مزید تفتیش کی ضرورت ہے، لہذا عدالت اِن کا جسمانی ریمانڈ دے۔
عدالتی کارروائی کے دوران جج صاحب نے نیب پراسیکیوٹر سے سوال کیا کہ کیا نوازشریف کو گرفتاری کے وقت ورانٹ گرفتاری دکھائے گئے؟جس پر نیب کے پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ نواز شریف کو وارنٹ گرفتاری دکھا کر باقاعدہ گرفتار کیا گیا ہے۔
نواز شریف کے وکیل امجد پرویز نے نیب کی جانب سے جسمانی ریمانڈ کی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ چوہدری شوگر ملز بنانے کے عمل میں نوازشریف شامل نہیں تھے۔
امجد پرویز کا مزید کہنا تھا کہ نوازشریف کے اثاثوں کو تین دہائیوں سے چھانا جا رہا ہے۔ مارشل لاء لگانے والوں کو بھی اس کمپنی میں ایسا کچھ نہ ملا، جس کا الزام آج لگا ہے۔
امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ پانامہ کیس کے فیصلے میں چوہدری شوگر ملز کو بھی دیکھا گیا تھا۔ لیکن نوازشریف کے خلاف تین ریفرنس داخل کرنے کا کہا گیا۔ جس میں چوہدری شوگر ملز کا کوئی کیس شامل نہیں تھا۔
نواز شریف کے وکیل نے اپنے دلائل میں عدالت کو بتایا کہ سن 1999 میں پہلی بار نوازشریف اِس مل کے شیئر ہولڈر بنے۔ جبکہ سن 2016 میں یہ شیئرز انہوں نے اپنے بھائی کے بچوں کو تحفے کے طور پر دے دیے۔ نیب نواز شریف کے سیاسی مخالفین کے لیے کام کر رہی ہے۔
امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے فرد جرم میں چوہدری شوگر ملز کا ذکر کیا ہے۔ جس پر جج صاحب نے نیب سے استفسار کیا کہ اگر ذکر ہے تو دوبارہ کیس کیسے آسکتا ہے۔ نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو جواب دیا کہ جو شہادت اب موجود ہے وہ پہلے نہیں تھی۔
اِس موقع پر نواز شریف نے عدالت سے اجازت طلب کر کے خود بات کرنا شروع کر دی اور عدالت کو بتایا کہ نیب اِس مل سے متعلق پوچھ گچھ کے لیے ایک ہی مرتبہ اُن کے پاس جیل آئی ہے۔ نیب نے جیل میں سوال کیے ہیں، جس کے انہوں نے جواب دے دیے ہیں۔
سابق وزیراعظم نے عدالت کو بتایا کہ انہیں جس بارے میں معلوم تھا، وہ بتا دیا جو نہیں معلوم تھا وہ نہیں بتایا۔
نواز شریف نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے گرفتاری کی وجوہات پڑھی ہیں جو ایک ہی چیز کے گرد گھوم رہی ہیں کہ آمدن کے ذرائع مختلف ہیں۔
نواز شریف نے بتایا کہ کبھی موقع ملا تو بتاؤں گا کہ جب بڑوں نے کاروبار شروع کیا تو ہم کیا بناتے تھے۔
سابق وزیرِ اعظم نے سوال کیا کہ کرپشن تو بتائیں کہ کہاں ہوئی؟ ایک دمڑی کی کرپشن دکھا دیں۔ سیاست سے دست بردار ہو جاؤں گا۔
انہوں نے کہا کہ کاروبار پہلے سے موجود تھے میں سیاست میں بعد میں آیا۔ نیب تو جنرل مشرف نے بنائی ہی میرے لیے تھی۔ اب نیب کو (ن) لیگ کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔
نوازشریف نے عدالت میں اپنے بیان میں مزید کہا کہ یہ تو کل ایک اور کیس بنا سکتے ہیں۔ یہ گوانتا نامو بے لے جانا چاہتے ہیں تو لے جائیں۔ کالا پانی لے جائیں، لیکن نوازشریف نہیں جھکے گا۔ جس پر عدالت میں مسلم لیگ ن کے حامی وکلاء اور کارکنوں نے نوازشریف کے حق میں نعرے بازی شروع کر دی۔ عدالت نے کارکنوں کو عدالت کے احترام میں خاموش رہنے اور شور نہ کرنے کی تنبیہ کی۔
عدالت نے نیب پراسیکیوٹر اور نوازشریف کے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف کو 14 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کی تحویل میں دے دیا۔ عدالت نے نواز شریف کو 25 اکتوبر کو دوبارہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
یاد رہے کہ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے چوہدری شوگر ملز کیس میں نواز شریف کی گرفتاری کی منظوری دی تھی۔ عدالت پیشی سے قبل نیب ٹیم نے کوٹ لکھپت جیل جاکر نواز شریف کو پہلے گرفتار کیا اور بعد میں ان کا جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے کے لیے احتساب عدالت میں پیش کیا۔
چوہدری شوگر مل کیس ہے کیا؟
نیب کا الزام ہے کہ شریف خاندان کی ملکیت چوہدری شوگر ملز کے ذریعے نواز شریف نے منی لانڈرنگ کی۔ جب کہ نواز شریف اس شوگر مل سے براہ راست فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔ نیب کا کہنا ہے کہ اس کے پاس کچھ ایسی دستاویزات ہیں جن سے متعلق نواز شریف سے تفتیش ضروری ہے۔ خیال رہے کہ چوہدری شوگر مل کیس میں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز اور ان کے بھتیجے یوسف عباس پہلے ہی نیب کی تحویل میں ہیں۔
عدالت میں پیشی سے قبل ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن کا آزادی مارچ بالکل جائز ہے اور انہوں نے مسلم لیگ ن کے کارکنوں کو اِس میں شرکت کے لیے کہہ دیا ہے۔
میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ جب یہ حکومت بنی تو مولانا صاحب نے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کی بات کی تھی۔ اُس وقت ہم نے مولانا فضل الرحمٰن صاحب کو منا لیا تھا۔ مگر اب اِس حکومت کے خلاف مولانا صاحب کا لانگ مارچ بالکل درست ہے۔ میں نے شہباز شریف صاحب کو خط لکھ کر مولانا صاحب کے لانگ مارچ میں شرکت سے متعلق ہدایات جاری کر دی ہیں۔ وہ جلد اِس کا اعلان کریں گے۔
نوازشریف ان دنوں کوٹ لکھپت جیل لاہور میں قید ہیں۔ احتساب عدالت نے انہیں العزیزیہ ریفرنس میں سات سال قید کی سزا سنائی تھی۔