لاہور ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو علاج کی غرض سے چار ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی ہے جبکہ ان کے ہمراہ شہباز شریف بھی بیرون ملک جا سکیں گے۔
لاہور ہائی کورٹ میں مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی جانب سے نواز شریف کا نام غیر مشروط طور پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کے لیے دائر درخواست پر سماعت کی گئی۔
فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے مختصر حکم جاری کیا، جس میں عدالت نے نئے بیان حلفی میں نواز شریف کو بیرون ملک علاج کے لیے چار ہفتے کا وقت دیا۔
لاہور ہائی کورٹ کے آرڈر کے مطابق اگر نواز شریف کی صحت بہتر نہیں ہوتی تو اس مدت میں توسیع ہو سکتی ہے، جبکہ حکومتی نمائندے سفارت خانے کے ذریعے نواز شریف سے رابطہ کر سکیں گے۔
سابق وزیر اعظم کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے معاملے کی درخواست کی مزید سماعت اب جنوری 2020 کے تیسرے ہفتے میں ہو گی۔
عدالتی کارروائی ختم ہونے کے بعد شہباز شریف نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ عدالت نے نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیا جس پر ان کے شکر گزار ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ نواز شریف کے علاج میں جو رکاوٹیں حائل تھیں وہ اب دور ہو چکی ہیں. ان کو علاج کی اجازت مل گئی ہے۔ وہ علاج کروا کر واپس آئیں گے۔
قبل ازیں، عدالت نے سابق وزیر اعظم کے علاج کے بعد وطن واپسی سے متعلق نواز شریف کے وکلا سے بیان حلفی طلب کیا تھا، جس پر نواز شریف کے بھائی اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے تحریری بیان حلفی عدالت میں جمع کرایا۔
وفاقی حکومت کے وکلا نے شہباز شریف کا بیان حلفی مسترد کرتے ہوئے موقف اپنایا تھا کہ بیان حلفی میں ایسی کوئی گارنٹی نہیں دی گئی کہ نواز شریف وطن واپس آئیں گے۔
شہباز شریف کی جانب سے بیان حلفی جمع کرانے کے بعد وفاقی حکومت کی جانب سے بھی ایک مسودہ عدالت میں جمع کرایا گیا، جسے شہباز شریف نے مسترد کر دیا۔
سماعت کے دوران جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دیے کہ اب عدالت خود ایک مسودہ تیار کرے گی، جو فریقین کو دیا جائے گا اور اسی کی روشنی میں فیصلہ کیا جائے گا۔
اس سے قبل، سماعت کے دوران جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ نواز شریف کو باہر جانے کی اجازت دے رہے ہیں تو پھر شرائط کس لیے ہیں؟
عدالت نے شہباز شریف کے وکیل سے کہا کہ عدالت کو نواز شریف کی وطن واپسی یقینی بنانے کے لیے بیان حلفی درکار ہو گا، جس پر شہباز شریف روسٹرم پر آئے اور کہا کہ وہ تین دفعہ پنجاب کے وزیر اعلٰی رہ چکے ہیں اور بیان حلفی دینے کو تیار ہیں کہ نواز شریف ہر صورت واپس آئیں گے۔
جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دیے کہ نواز شریف اور شہباز شریف سے بیان حلفی لے لیتے ہیں۔ اگر بیان حلفی سے منحرف ہوئے تو توہین عدالت کا قانون موجود ہے۔
عدالت نے شہباز شریف کو ہدایت کی کہ وہ بیان حلفی کے لیے تحریری ڈرافٹ تیار کر لیں، جس کے بعد عدالت حتمی فیصلہ کرے گی۔
قبل ازیں، جب ہفتے کو سماعت شروع ہوئی تو وفاقی حکومت کے وکیل نے شہباز شریف کے وکیل کو پیش کش کی کہ اگر نواز شریف 'شیورٹی بانڈ' عدالت میں جمع کرانا چاہتے ہیں تو حکومت کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔
جسٹس علی باقر نجفی نے شہباز شریف کے وکیل سے استفسار کیا کہ وہ کتنی رقم کا شیورٹی بانڈ جمع کرا سکتے ہیں، جس پر امجد پرویز ایڈوکیٹ نے کہا کہ اس ضمن میں نواز شریف سے پوچھنے کے بعد ردعمل دیا جا سکتا ہے۔
عدالت نے شہباز شریف کے وکیل سے استفسار کیا کہ سات ارب کے شیورٹی بانڈ کے علاوہ نواز شریف حکومت کو مطمئن کرنے کے لیے مزید کیا آپشن دے سکتے ہیں۔
حکومت کے وکیل نے عدالت میں بتایا کہ حکومت کو اس بات کا ادراک ہے کہ نواز شریف کی صحت ٹھیک نہیں۔ لہذٰا، حکومت چاہتی ہے کہ یہ معاملہ جلدی حل ہو جائے۔
عدالت نے فریقین سے مختلف سوالات کیے اور پوچھا کہ کیا 'شیورٹی بانڈ' کی رقم کم کی جا سکتی ہے؟ جسٹس علی باقر نجفی نے فریقین سے کہا کہ وہ کچھ وقت لیں اور مشاورت کے بعد عدالت میں دلائل دیں۔
اس پر عدالت نے کارروائی کچھ دیر کے لیے ملتوی کر دی۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
قانونی ماہرین کے مطابق 'شیورٹی بانڈ' کا مطلب یہ ہے کہ نواز شریف کی جانب سے کوئی بھی شخص حکومت یا عدالت کو یہ ضمانت دے گا کہ اگر نواز شریف نے شرائط پوری نہ کیں تو وہ طے شدہ رقم سرکاری خزانے میں جمع کرانے کا ذمہ دار ہو گا۔
لاہور ہائی کورٹ نے درخواست قابل سماعت قرار دیتے ہوئے باقاعدہ سماعت کے لیے 18 نومبر یعنی پیر کی تاریخ مقرر کی تھی۔ تاہم، شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز نے فوری سماعت کی درخواست کی جس پر عدالت نے ہفتے کو سماعت کرنے کی استدعا منظور کر لی تھی۔
جمعے کو وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق احمد خان نے 45 صفحات پر مشتمل جواب عدالت میں داخل کرایا تھا۔
وفاقی حکومت نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ نواز شریف سزا یافتہ مجرم ہیں۔ انہیں سیکیورٹی بانڈ جمع کرائے بغیر ملک سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
وفاقی حکومت کا مزید کہنا تھا کہ نواز شریف کے خلاف مختلف عدالتوں میں کیسز بھی زیر سماعت ہیں۔
وفاقی حکومت نے اپنے جواب میں کہا کہ نواز شریف کا نام نیب کی سفارش پر ای سی ایل میں ڈالا گیا۔ لہذٰا، شہباز شریف کی درخواست ناقابل سماعت ہے، عدالت اسے مسترد کر دے۔ اگر نواز شریف کو علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دینی بھی ہے تو سیکیورٹی بانڈز کی شرط برقرار رکھی جائے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق احمد خان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کو اس ضمن میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ اگر کوئی کراچی کا رہائشی ہے تو کیا اسے بھی اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرنا ہو گا؟
نواز شریف کے وکیل امجد پرویز نے دلائل دیے کہ متعلقہ ہائی کورٹس کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ای سی ایل سے متعلق فیصلہ کر سکتی ہے۔
نواز شریف کے وکیل امجد پرویز ایڈوکیٹ نے دلائل دیے کہ کسی بھی عدالت نے نواز شریف کے بیرون ملک جانے سے قبل ضمانتی بانڈ جمع کرانے کی شرط عائد نہیں کی۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ وہ ٹیلی ویژن مباحثے دیکھ کر فیصلے نہیں کرتے۔ عدالت کے روبرو جو کچھ پیش کیا جائے گا اسی بنیاد پر قانون کے مطابق فیصلہ کریں گے۔
گزشتہ ماہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ اسٹیل مل کیس میں نواز شریف کی سزا معطل کرتے ہوئے انہیں طبی بنیادوں پر آٹھ ہفتوں کے لیے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
نواز شریف اس وقت لاہور میں اپنی رہائش گاہ پر ہی زیر علاج ہیں، جہاں ان کے لیے خصوصی میڈیکل یونٹ قائم کیا گیا ہے۔ نواز شریف کے ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ تاحال نواز شریف کی بیماری کی تشخیص نہیں ہو سکی۔ لہٰذا، انہیں فوری طور پر بیرون ملک جانا چاہیے۔
نواز شریف کا نام وزارتِ داخلہ کی ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں موجود ہونے کے باعث وہ بیرون ملک سفر نہیں کر سکتے۔
پاکستان کی کابینہ کی ذیلی کمیٹی نے نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی مشروط منظوری دی تھی، جس کے تحت نواز شریف کو سات ارب کا ضمانتی بانڈ جمع کرانے کی ہدایت کی گئی تھی۔ لیکن، مسلم لیگ (ن) اور شریف خاندان نے یہ شرط مسترد کر دی تھی۔