واشنگٹن —
بھارت کے ایک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سینٹر فار دی ڈیولپنگ سوسائٹیز کے ڈاکٹر ہلال احمد نے کہا ہے کہ بھارت کے سولہ، سترہ کروڑ مسلمانوں کے ووٹ کا نو فیصد حالیہ انتخابات میں نریندرا مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے حصے میں آیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ بھارت کی نوجوان مسلمان آبادی کو نریندرا مودی کے معاشی خوش حالی کے نعرے نے متاثر کیا ہے۔
ہلال احمد 'وائس آف امریکہ - اردو' کے ہفتہ وار پروگرام 'انڈی پنڈنس ایونیو' میں نریندرا مودی کے بھارت، ہندوستانی مسلمانوں اور پاکستان سے تعلقات کے موضوع پر بات کر رہے تھے۔
ہلال احمد کا کہنا تھا کہ نریندرا مودی کی کامیابی پر بھارت کے عام مسلمان اور مختلف بھارتی مسلمان تنظیموں کے ردعمل میں فرق کوسمجھنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی ریاست آسام میں آل انڈیا ڈیمو کریٹک فرنٹ کے مسلمان اراکین نے دو نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے مودی اور بی جے پی کی حمایت کا فیصلہ کیا، جبکہ بھارت کی دیگر مسلمان تنظیمیں مودی حکومت کے متعلق کوئی واضح موقف اپنانے کے بجائے ’’انتظار کرو اوردیکھو‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔
ہلال احمد کا کہنا تھا کہ گوکہ بھارت کی دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں، بھارتی مسلمانوں پر پاکستان سے جذباتی وابستگی کا الزام عائد کرتی ہیں، بھارت کی نوجوان مسلمان آبادی، پاکستان کے ساتھ ویسی وابستگی محسوس نہیں کرتی، جیسی 1971 تک محسوس کی جاتی تھی۔ بھارت میں کچھ سال پہلے ہونے والی ایک ریسرچ کے مطابق 72فیصد بھارتی مسلمان اپنے ہندوستانی ہونے پر فخرکا اظہار کرتے ہیں۔
ہلال احمد کا کہنا تھا کہ نریندرا مودی کے اقتدار سنبھالنے کے اولین چھ دنوں میں ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا، جس سے یہ کہا جا سکے کہ وہ بھارتی مسلمانوں کے ساتھ دیگر بھارتیوں کے مقابلے میں کوئی مختلف رویہ اپنائیں گے۔
تاہم ہلال احمد کے بقول مودی نے اب تک ایسا بھی کوئی اشارہ نہیں دیا کہ ملک کے پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والوں کی فلاح کے لئے وہ کن منصوبوں پر کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ہلال احمد کا کہنا تھا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ بی جے پی کو ملنے والا 31% بھارتی ووٹ صرف دائیں بازو کی کٹر نظریات والی ہندو آبادی کی طرف سے ملا ہے۔ ہلال احمد کا کہنا تھا کہ نریندرا مودی کی حکومت میں بھی بھارت کی خارجہ پالیسی میں کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں کرنی چاہئے۔
پروگرام میں شریک واشنگٹن کے تھنک ٹینک یو نائیٹڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس (USIP) سے منسلک تجزیہ کار معید یوسف کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں بی جے پی کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے تاریخی کردار کی اہمیت کو بھلایا نہیں جا سکتا جو قوم پرست ہو کر بھی اپنے اعتدال پسند نظریات کی وجہ سے یاد کئے جاتے ہیں۔
تاہم معید یوسف کے بقول نریندرا مودی کے ماضی کی کئی تفصیلات متنازع قرار دی جاتی ہیں جو سیاسی مبصرین کو کچھ عرصے ان کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے سے روک کر رکھیں گی۔
معید یوسف کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان خیر سگالی کے رشتوں کی تمام پیش رفت ممبئی حملوں کے بعد زبردست رکاوٹ سے دوچار ہوگئی تھی، اور بھارت کی نوجوان نسل پاکستان کو اسی تناظر میں دیکھتی رہے گی، جب تک ممبئی حملوں کے ذمہ داروں کو ان کے انجام تک نہیں پہنچایا جاتا۔
تاہم معید یوسف کا کہنا تھا کہ نریندرا مودی بین الاقوامی سطح پر اپنا منفی تاثر دور کرنے کے لئے زیادہ محنت کرنا چاہیں گے اور اپنی تقریب حلف برداری میں پاکستانی وزیر اعظم کو مدعو کرکے انہوں نے اس کا آغاز کر دیا ہے۔
معید یوسف کے بقول مودی کو اپنے سخت گیر قوم پرست ووٹروں اور حامیوں کے ساتھ ساتھ بھارت کی بیوروکریسی کی بات بھی سننی پڑے گی، جس کی وجہ سے پڑوسی ملکوں سے گرم جوشی پر مبنی تعلقات کی بنیاد پر تجارت بڑھانے کا مقصد حاصل کرنا اتنا آسان ثابت نہیں ہوگا۔
دوسری طرف، معید یوسف کے بقول پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے لئے بھی کشمیر اور دیگر متنازعہ معاملوں پر آگے بڑھے بغیر اپنے دائیں بازو کے ووٹروں کی مرضی کے خلاف جاکر بھارت سے تجارتی تعلقات بڑھانا ممکن نہیں ہوگا۔
معید یوسف نے کہا کہ واشنگٹن نریندرا مودی کو زیادہ نہیں جانتا، لیکن اب جبکہ وہ بھارت کے وزیر اعظم بن چکے ہیں، امریکہ کی کوشش ہوگی کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں مزید مضبوطی لائی جائے۔
'وائس آف امریکہ' کے نمائندے دیپک دوبھال نے، جو عام انتخابات کے دوران بھارت کی مختلف ریاستوں میں مختلف طبقہ فکر کے ووٹروں اور سیاسی تجزیہ کاروں سے بات چیت کر چکے ہیں، کہا کہ بھارتی مسلمانوں میں مودی کے اقتدار سنبھالنے پر تحفظات تو ضرور موجود ہیں لیکن انہیں بھارت میں ایسا کوئی خوف نظر نہیں آیا کہ مودی اقتدار میں آکر سب کچھ ختم کر دیں گے۔
دیپک کا کہنا تھا کہ نریندرا مودی کی نئی کابینہ میں سخت گیر موقف کی حامی سشما سوراج کو وزیر خارجہ اور اجیت ڈووال کو قومی سلامتی کا مشیر تعینات کیا گیا ہے۔ اجیت ڈووال چھ سال تک بھارتی زیر انتظام کشمیر میں بھی تعینات رہ چکے ہیں اور دہشت گردی روکنے کے لئے سخت پالیسیاں اپنانے کے حامی ہیں۔
تاہم دیپک کا کہنا تھا کہ اجیت ڈووال پاک بھارت سرحد کے دونوں طرف کے اہم کرداروں سے اتنے واقف ہیں کہ سب کو بات چیت کی میز پر لا سکتے ہیں۔ دیپک کے بقول، یہ پیش گوئی کرنا آسان نہیں کہ ممبئی طرز کے کسی نئے حملے کی صورت میں نریندرا مودی حکومت کا رویہ من موہن سنگھ حکومت سے کتنا مختلف ہوگا۔
دیپک دوبھال کا کہنا تھا کہ نریندرا مودی چونکہ ہندوستان کی تاریخ میں اپنا نام درج کرانا چاہتے ہیں، اس لئے ممکنہ طور پر ان کی کوشش یہ ہو سکتی ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ کشمیر، سرکریک اور دیگر معاملات کو سلجھانے کے لئے کوئی حیرت انگیز پیش قدمی کریں۔
ہلال احمد 'وائس آف امریکہ - اردو' کے ہفتہ وار پروگرام 'انڈی پنڈنس ایونیو' میں نریندرا مودی کے بھارت، ہندوستانی مسلمانوں اور پاکستان سے تعلقات کے موضوع پر بات کر رہے تھے۔
ہلال احمد کا کہنا تھا کہ نریندرا مودی کی کامیابی پر بھارت کے عام مسلمان اور مختلف بھارتی مسلمان تنظیموں کے ردعمل میں فرق کوسمجھنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی ریاست آسام میں آل انڈیا ڈیمو کریٹک فرنٹ کے مسلمان اراکین نے دو نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے مودی اور بی جے پی کی حمایت کا فیصلہ کیا، جبکہ بھارت کی دیگر مسلمان تنظیمیں مودی حکومت کے متعلق کوئی واضح موقف اپنانے کے بجائے ’’انتظار کرو اوردیکھو‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔
بھارت کی نوجوان مسلمان آبادی ، پاکستان سے1971جیسی وابستگی محسوس نہیں کرتی، ہلال احمد،سینٹر فار دی سٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹیز
ہلال احمد کا کہنا تھا کہ گوکہ بھارت کی دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں، بھارتی مسلمانوں پر پاکستان سے جذباتی وابستگی کا الزام عائد کرتی ہیں، بھارت کی نوجوان مسلمان آبادی، پاکستان کے ساتھ ویسی وابستگی محسوس نہیں کرتی، جیسی 1971 تک محسوس کی جاتی تھی۔ بھارت میں کچھ سال پہلے ہونے والی ایک ریسرچ کے مطابق 72فیصد بھارتی مسلمان اپنے ہندوستانی ہونے پر فخرکا اظہار کرتے ہیں۔
ہلال احمد کا کہنا تھا کہ نریندرا مودی کے اقتدار سنبھالنے کے اولین چھ دنوں میں ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا، جس سے یہ کہا جا سکے کہ وہ بھارتی مسلمانوں کے ساتھ دیگر بھارتیوں کے مقابلے میں کوئی مختلف رویہ اپنائیں گے۔
تاہم ہلال احمد کے بقول مودی نے اب تک ایسا بھی کوئی اشارہ نہیں دیا کہ ملک کے پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والوں کی فلاح کے لئے وہ کن منصوبوں پر کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ہلال احمد کا کہنا تھا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ بی جے پی کو ملنے والا 31% بھارتی ووٹ صرف دائیں بازو کی کٹر نظریات والی ہندو آبادی کی طرف سے ملا ہے۔ ہلال احمد کا کہنا تھا کہ نریندرا مودی کی حکومت میں بھی بھارت کی خارجہ پالیسی میں کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں کرنی چاہئے۔
پروگرام میں شریک واشنگٹن کے تھنک ٹینک یو نائیٹڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس (USIP) سے منسلک تجزیہ کار معید یوسف کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں بی جے پی کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے تاریخی کردار کی اہمیت کو بھلایا نہیں جا سکتا جو قوم پرست ہو کر بھی اپنے اعتدال پسند نظریات کی وجہ سے یاد کئے جاتے ہیں۔
تاہم معید یوسف کے بقول نریندرا مودی کے ماضی کی کئی تفصیلات متنازع قرار دی جاتی ہیں جو سیاسی مبصرین کو کچھ عرصے ان کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے سے روک کر رکھیں گی۔
معید یوسف کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان خیر سگالی کے رشتوں کی تمام پیش رفت ممبئی حملوں کے بعد زبردست رکاوٹ سے دوچار ہوگئی تھی، اور بھارت کی نوجوان نسل پاکستان کو اسی تناظر میں دیکھتی رہے گی، جب تک ممبئی حملوں کے ذمہ داروں کو ان کے انجام تک نہیں پہنچایا جاتا۔
دونوں ملکوں کے سخت گیرووٹر مودی اور نواز شریف کو ایک دوسرے کو رعایتیں دینے سے باز رکھیں گے، معید یوسف ، یونائیٹڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس
تاہم معید یوسف کا کہنا تھا کہ نریندرا مودی بین الاقوامی سطح پر اپنا منفی تاثر دور کرنے کے لئے زیادہ محنت کرنا چاہیں گے اور اپنی تقریب حلف برداری میں پاکستانی وزیر اعظم کو مدعو کرکے انہوں نے اس کا آغاز کر دیا ہے۔
معید یوسف کے بقول مودی کو اپنے سخت گیر قوم پرست ووٹروں اور حامیوں کے ساتھ ساتھ بھارت کی بیوروکریسی کی بات بھی سننی پڑے گی، جس کی وجہ سے پڑوسی ملکوں سے گرم جوشی پر مبنی تعلقات کی بنیاد پر تجارت بڑھانے کا مقصد حاصل کرنا اتنا آسان ثابت نہیں ہوگا۔
دوسری طرف، معید یوسف کے بقول پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے لئے بھی کشمیر اور دیگر متنازعہ معاملوں پر آگے بڑھے بغیر اپنے دائیں بازو کے ووٹروں کی مرضی کے خلاف جاکر بھارت سے تجارتی تعلقات بڑھانا ممکن نہیں ہوگا۔
معید یوسف نے کہا کہ واشنگٹن نریندرا مودی کو زیادہ نہیں جانتا، لیکن اب جبکہ وہ بھارت کے وزیر اعظم بن چکے ہیں، امریکہ کی کوشش ہوگی کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں مزید مضبوطی لائی جائے۔
'وائس آف امریکہ' کے نمائندے دیپک دوبھال نے، جو عام انتخابات کے دوران بھارت کی مختلف ریاستوں میں مختلف طبقہ فکر کے ووٹروں اور سیاسی تجزیہ کاروں سے بات چیت کر چکے ہیں، کہا کہ بھارتی مسلمانوں میں مودی کے اقتدار سنبھالنے پر تحفظات تو ضرور موجود ہیں لیکن انہیں بھارت میں ایسا کوئی خوف نظر نہیں آیا کہ مودی اقتدار میں آکر سب کچھ ختم کر دیں گے۔
نریندرا مودی، تاریخ میں نام درج کروانے کے لئے کشمیر اور متنازعہ معاملوں پر حیرت انگیز پیش قدمی کر سکتے ہیں ، دیپک دوبھال ، وائس آف امریکہ
دیپک کا کہنا تھا کہ نریندرا مودی کی نئی کابینہ میں سخت گیر موقف کی حامی سشما سوراج کو وزیر خارجہ اور اجیت ڈووال کو قومی سلامتی کا مشیر تعینات کیا گیا ہے۔ اجیت ڈووال چھ سال تک بھارتی زیر انتظام کشمیر میں بھی تعینات رہ چکے ہیں اور دہشت گردی روکنے کے لئے سخت پالیسیاں اپنانے کے حامی ہیں۔
تاہم دیپک کا کہنا تھا کہ اجیت ڈووال پاک بھارت سرحد کے دونوں طرف کے اہم کرداروں سے اتنے واقف ہیں کہ سب کو بات چیت کی میز پر لا سکتے ہیں۔ دیپک کے بقول، یہ پیش گوئی کرنا آسان نہیں کہ ممبئی طرز کے کسی نئے حملے کی صورت میں نریندرا مودی حکومت کا رویہ من موہن سنگھ حکومت سے کتنا مختلف ہوگا۔
دیپک دوبھال کا کہنا تھا کہ نریندرا مودی چونکہ ہندوستان کی تاریخ میں اپنا نام درج کرانا چاہتے ہیں، اس لئے ممکنہ طور پر ان کی کوشش یہ ہو سکتی ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ کشمیر، سرکریک اور دیگر معاملات کو سلجھانے کے لئے کوئی حیرت انگیز پیش قدمی کریں۔