جنگلی حیات کی بنا پر شہرت رکھنے والے افریقی ملک بوٹسوانا نے کہا ہے کہ وہ حالیہ ہفتوں میں اوکاوانگو ڈیلٹا کے علاقے میں 275 ہاتھیوں کی نعشیں ملنے کی تحقیقات کر رہا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں اچانک ہاتھی ہلاک کیسے ہو گئے۔
جنگلی حیات اور نیشنل پارکس ڈپارٹمنٹ کے ایک اعلان میں کہا گیا ہے کہ وہ ہاتھیوں کی پر اسرار ہلاکتوں کا کھوج لگانے کے لیے انسانی وسائل اور ہوائی جہاز بروئے کار لا رہا ہے۔
جنگلی حیات اور نیشنل پارک ڈپارٹمنٹ کے قائمقام ڈائریکٹر لوکس ٹولو نے کہا ہے کہ مقامی آبادیوں کو ہاتھیوں کی نعشوں سے دور رہنے کی ہدایت کر دی گئی ہے کہ وہ مردہ ہاتھیوں کے دانت نکالنے سے احتراز کریں, تاکہ وہ کسی نامعلوم مرض کی لپیٹ میں نہ آ جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہاتھی دانت حاصل کرنے کی غرض سے ہاتھیوں کو مارنے کا خطرہ بوٹسوانا کو درپیش رہا ہے. لیکن موجودہ ہلاکتوں کا تعلق ہاتھی دانت حاصل کرنے سے بالکل ہی نہیں ہے، کیونکہ مرنے والے تمام ہاتھیوں کے دانت سلامت ہیں۔
نیشنل پارکس کے تحٖفظ کے لیے کام کرنے والے ایک گروپ کے ڈائریکٹر مارک ہیلی نے ایک ای میل میں کہا ہے کہ ہاتھی مئی کے شروع میں مرنے شروع ہو گئے تھے، اور اس سطح کی ہلاکتوں کے مسئلے میں حکومت کو چند دنوں کے اندر اس پر کام شروع کر دینا چاہیے تھا۔ لیکن کئی مہینے گزر جانے کے بعد بھی ہم نکتہ آغاز پر ہی موجود ہیں۔ نہ تو ٹیسٹ مکمل ہو سکے ہیں اور نہ ہی مزید معلومات فراہم کی گئی ہیں۔
جنگلی حیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ہاتھیوں کو کرونا وائرس ہونے یا انہیں زہر دیے جانے کا بھی کوئی امکان نظر نہیں آیا۔
بعض واقعات میں ہاتھی دانت چرانے والے انہیں زہر دے کر ہلاک کرتے ہیں اور پھر دانت چرا لیتے ہیں۔ لیکن ایسے واقعات میں مردہ ہاتھیوں کے آس پاس مردہ گدھ بھی ملتے ہیں جو ان کا گوشت کھانے سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ لیکن بوٹسوانا میں ایسا کوئی منظر دیکھنے میں نہیں آیا جس سے انہیں زہر دے کر ہلاک کرنے کا امکان باقی نہیں رہتا۔
ماہرین کے مطابق جنگلی جانوروں کی ہلاکتوں کا ایک اور سبب ان جوہڑوں میں بڑے پیمانے پر کائی کا جمنا ہوتا ہے، جہاں سے جانور پانی پیتے ہیں، کیونکہ کائی کی کثیر مقدار پانی کو زہریلا بنا دیتی ہے، جس کے پینے سے جانور ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ہاتھیوں کی زیادہ تر نعشیں پانی کے جوہڑوں کے قریب سے ملی ہیں۔ لیکن وہاں ہاتھیوں کے علاوہ کسی اور جانور کی نعش نہیں ملی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان ہلاکتوں کا سبب کائی زدہ پانی نہیں ہے۔
ماضی میں ہاتھیوں کی ہلاکتوں کی ایک وجہ خشک سالی بھی بنتی رہی ہے۔ لیکن اس واقعہ میں یہ امکان اس لیے نہیں ہے کیونکہ حالیہ مہینوں میں علاقے میں کافی بارشیں ہوئی ہیں۔
علاقے کا دورہ کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ ہاتھی کمزور ہو گئے ہیں۔ وہ اچانک ایک دائرے میں گھومنا شروع کر دیتے ہیں اور پھر گر کر مر جاتے ہیں۔ جس سے یہ شبہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ ان کے دماغی نظام میں کوئی خرابی ہو جاتی ہے جو ان کی ہلاکت کا سبب بنتی ہے۔
بوٹسوانا کی حکومت نے مردہ ہاتھیوں کے سمپل جنوبی افریقہ، یوگنڈا اور کینیڈا کی لیبارٹریوں کو بھجوا دیے ہیں اور وہاں سے رپورٹس کا انتظار کیا جا رہا ہے۔
دنیا میں سب سے زیادہ ہاتھی بوٹسوانا میں پائے جاتے ہیں۔ براعظم افریقہ میں پائے جانے والے کل ہاتھیوں میں سے ایک تہائی بوٹسوانا میں ہیں، جو اس ملک میں سیاحوں کی دلچسپی کا خاص موضوع ہیں۔ سن 2013 کے ایک فضائی سروے سے اندازہ لگایا گیا تھا کہ ملک میں ہاتھیوں کی تعداد ایک لاکھ 56 ہزار کے لگ بھگ ہے۔