پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے خارج کرانے کی درخواست پیر کو سندھ ہائی کورٹ میں دائر کی گئی جسے سماعت کے لیے منظور کر لیا گیا ہے۔
یہ درخواست سابق صدر کے وکیل فروغ نسیم نے دائر کی جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ پرویز مشرف کا نام ’’ایگزٹ کنٹرول لسٹ‘‘ میں ڈالنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مقبول باقر نے جسٹس مظہر علی کی سربراہی میں دو رکنی بنیج تشکیل دیا ہے جو اس درخواست کی سماعت کرے گا۔
فروغ نسیم نے کہا کہ پرویز مشرف کے خلاف ’’ایک بھی مقدمہ ایسا نہیں ہے جس میں اُن کو عدالت سے ضمانت نا ملی ہو۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ سابق صدر نے سیکرٹری داخلہ کو بھی ایک خط لکھا تھا جس میں اُنھوں نے اپنا نام ’ای سی ایل‘ سے نکالنے کی درخواست کی تھی، جسے اس بنا پر مسترد کر دیا گیا کہ پرویز مشرف کے خلاف کئی مقدمات زیر سماعت ہیں۔
تاہم فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ کسی بھی ٹرائل کورٹ کی جانب سے پرویز مشرف کے بیرون ملک جانے پر پابندی عائد نہیں کی گئی ہے اور نا ہی خصوصی عدالت نے اُن کی نقل و حرکت پر کسی طرح کی قدغن لگائی ہے۔
سابق صدر گزشتہ ہفتے ہی اسلام آباد سے کراچی گئے تھے۔ اُنھیں دیگر مقدمات کے علاوہ سنگین غداری سے متعلق مقدمے کا سامنا ہے جس میں تین رکنی خصوصی عدالت کی جانب سے اُن پر فرد جرم بھی عائد کی گئی لیکن پرویز مشرف نے صحت جرم سے انکار کیا ہے۔
یہ مقدمہ اب بھی خصوصی عدالت میں زیر سماعت ہے۔
سابق صدر کا نام حکومت کی طرف سے اُن افراد کی فہرست میں شامل ہے جن کے بیرون ملک جانے پر پابندی عائد ہے۔
پرویز مشرف اپنے علاج اور علیل والدہ کی عیادت کے لیے بیرون ملک جانا چاہتے ہیں لیکن ’ایگزٹ کنٹرول لسٹ‘ میں نام ہونے کے باعث وہ پاکستان سے باہر نہیں جا سکتے۔
2007 میں ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ اور آئین کو معطل کرنے پر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ چلایا جا رہا ہے، وہ ملک کے پہلے سابق فوجی سربراہ ہیں جنہیں اس نوعیت کے الزامات کا سامنا ہے۔
یہ درخواست سابق صدر کے وکیل فروغ نسیم نے دائر کی جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ پرویز مشرف کا نام ’’ایگزٹ کنٹرول لسٹ‘‘ میں ڈالنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مقبول باقر نے جسٹس مظہر علی کی سربراہی میں دو رکنی بنیج تشکیل دیا ہے جو اس درخواست کی سماعت کرے گا۔
فروغ نسیم نے کہا کہ پرویز مشرف کے خلاف ’’ایک بھی مقدمہ ایسا نہیں ہے جس میں اُن کو عدالت سے ضمانت نا ملی ہو۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ سابق صدر نے سیکرٹری داخلہ کو بھی ایک خط لکھا تھا جس میں اُنھوں نے اپنا نام ’ای سی ایل‘ سے نکالنے کی درخواست کی تھی، جسے اس بنا پر مسترد کر دیا گیا کہ پرویز مشرف کے خلاف کئی مقدمات زیر سماعت ہیں۔
تاہم فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ کسی بھی ٹرائل کورٹ کی جانب سے پرویز مشرف کے بیرون ملک جانے پر پابندی عائد نہیں کی گئی ہے اور نا ہی خصوصی عدالت نے اُن کی نقل و حرکت پر کسی طرح کی قدغن لگائی ہے۔
سابق صدر گزشتہ ہفتے ہی اسلام آباد سے کراچی گئے تھے۔ اُنھیں دیگر مقدمات کے علاوہ سنگین غداری سے متعلق مقدمے کا سامنا ہے جس میں تین رکنی خصوصی عدالت کی جانب سے اُن پر فرد جرم بھی عائد کی گئی لیکن پرویز مشرف نے صحت جرم سے انکار کیا ہے۔
یہ مقدمہ اب بھی خصوصی عدالت میں زیر سماعت ہے۔
سابق صدر کا نام حکومت کی طرف سے اُن افراد کی فہرست میں شامل ہے جن کے بیرون ملک جانے پر پابندی عائد ہے۔
پرویز مشرف اپنے علاج اور علیل والدہ کی عیادت کے لیے بیرون ملک جانا چاہتے ہیں لیکن ’ایگزٹ کنٹرول لسٹ‘ میں نام ہونے کے باعث وہ پاکستان سے باہر نہیں جا سکتے۔
2007 میں ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ اور آئین کو معطل کرنے پر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ چلایا جا رہا ہے، وہ ملک کے پہلے سابق فوجی سربراہ ہیں جنہیں اس نوعیت کے الزامات کا سامنا ہے۔