|
چین کے آرٹیفیشل انٹیلی جینس (اے آئی) سافٹ ویئر 'ڈیپ سیک' کے لانچ کے بعد سے امریکہ، آسٹریلیا اور تائیوان سمیت کئی ممالک کی حکومتوں نے سرکاری ڈیوائسز پر اس کے استعمال پر پابندی عائد کردی ہے۔
وی او اے مینڈرین سروس کے لیے ژوانگ جی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ڈیپ سیک میں چین کے سرکای بیانیے کو مضبوط کرنے کا میکنزم موجود ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس میں یوزر پرائیویسی اور ڈیٹا سیکیورٹی سے متعلق معاملات بھی شامل ہیں۔
تجزیہ کاروں کے خیال میں اسی وجہ سے ڈیپ سیک اظہارِ رائے کے کنٹرول اور رائے عامہ میں تبدیلی کے لیے ایک ممکنہ ٹول بن گیا ہے اور اس نے عالمی برادری کو مزید چوکنا کر دیا ہے۔
چار فروری کو آسٹریلیا کی حکومت نے سرکاری ڈیوائسز پر ڈیپ سیک کے استعمال پر پابندی کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ یہ "ناقابلِ قبول سیکیورٹی رسک" ہے۔
تائیوان اور اٹلی بھی اس نوعیت کی پابندی عائد کر چکے ہیں جب کہ امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگان) اور خلائی ادارے 'ناسا' نے بھی 'ڈیپ سیک' کے استعمال پر پابندی لگائی تھی۔
دوسری جانب حال ہی میں امریکی سینیٹر جوش ہولی نے 'ڈیپ سیک' کے استعمال کو جرم قرار دینے کا بل تجویز کیا ہے۔
بل میں خلاف ورزی کرنے والوں کو 20 سال قید اور 10 لاکھ ڈالر تک جرمانے کی بھی تجاویز دی گئی ہیں۔
چین کی فوج سے منسلک 'جون ژینگ پنگ اسٹوڈیو' نے پیر کو ایک آرٹیکل میں امریکہ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اس مضمون میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی چیز میں "چین" کا نام آئے تو امریکہ اس پر انتہائی ردعمل دیتا ہے۔
کونٹینٹ کی سینسرشپ پر تنازع
عالمی سطح پر ڈیپ سیک سے متعلق شبہات صرف ڈیٹا سیکیورٹی کے مسائل تک محدود نہیں ہیں۔ کئی تجربات میں یہ بھی سامنے آیا کہ اس چیٹ بوٹ کے جوابات چین کے سرکاری مؤقف سے بہت زیادہ مطابقت رکھتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے پیر کو ایک رپورٹ میں امریکی جریدے 'وائرڈ' نے نشاندہی کی کہ ڈیپ سیک نے ٹیسٹ کے دوران کونٹینٹ کے جائزے کے مختلف لیولز دکھائے۔
جب ڈیپ سیک کی آفیشل ایپ کو استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے جو جوابات موصول ہوتے ہیں وہ 2023 میں چین کی حکومت کے جاری کردہ "انتظامی اقدامات برائے جنریٹو آرٹیفیشل انٹیلی جینس سروسز" کے مطابق ہوتے ہیں۔
اس میں یہ کہا گیا ہے کہ ایسا مواد جو "قومی یکجہتی اور سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچائے" وہ جنریٹ نہیں کیا جائے گا۔
اسی طرح اگر صارفین ماڈل کو ڈاؤن لوڈ کرکے دیگر پلیٹ فارمز پر استعمال کرتے ہیں تب بھی جو جوابات موصول ہوتے ہیں وہ چینی حکومت کے بیانیے کے مطابق ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر جب پوچھا جائے کہ "چین حساس معاملات کو رپورٹ کرنے والے صحافیوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتا ہے؟" تو اسکرین پر پہلے جواب آتا ہے کہ "صحافیوں کو رپورٹنگ کے لیے سینسر اور گرفتار کیا جاتا ہے۔" لیکن پھر یہ جواب ڈیلیٹ ہو جاتا ہے اور یہ لکھا آتا ہے "معذرت، مجھے نہیں اندازہ کہ میں اس طرح کے سوال کا کیسے جواب دوں۔"
ساتھ ہی موضوع تبدیل کرکے صارفین کو ریاضی، پروگرامنگ یا لاجک پرابلمز سے متعلق بات چیت کی دعوت دی جاتی ہے۔
رپورٹ میں تجزیہ کیا گیا ہے کہ یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ ڈیپ سیک میں "ریئل ٹائم فلٹرنگ" موجود ہے جو کونٹینٹ کو فوری طور پر تبدیل کرسکتی ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ حتمی جواب "کمپلائنٹ" یعنی چین کی پالیسی کے مطابق ہو۔
اس کے علاوہ پروگرام کی "ٹریننگ لیول سینسرشپ" بھی کی گئی ہے۔ لہٰذا اگر اسے تھرڈ پارٹی پلیٹ فارم کے ذریعے بھی استعمال کیا جائے تو ڈیپ سیک "20 ویں صدی کے سب سے اہم تاریخی واقعے" پر کمیونسٹ پارٹی کی قیادت کو اُجاگر کرتا ہے جب کہ ثقافتی انقلاب جیسے حساس واقعات سے گریز کرتا ہے۔
ساٹھ کی دہائی میں چینی رہنما ماؤزے تنگ نے مہم شروع کی تھی جسے 'ثقافتی انقلاب' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس میں بڑی تعداد میں نوجوان اور ملازمین شامل ہوئے تھے۔
اس دوران پرتشدد واقعات کی وجہ سے ہزاروں افراد جان کی بازی ہار گئے تھے اور چین کو شدید عدم استحکام کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
'چین کے اے آئی ماڈلز غیر ملکی حریفوں جیسا کونٹینٹ تیار نہیں کرسکتے'
تائیوان کے دارالحکومت تائپے میں تائیوان آرٹیفیشل انٹیلی جینس لیبارٹری کے بانی ڈویجن نے وائس آف امریکہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ چین کے بڑے اے آئی ماڈلز "انٹرنیٹ فائر وال" اور ریگولیٹری قوانین و ضوابط کی وجہ سے محدود ہیں۔
مثال کے طور پر جب ڈیپ سیک سے پوچھا گیا کہ "کون سی ویکسین بہتر ہے۔" تو یہ نہ صرف چینی ویکسین کو پروموٹ کرتا ہے بلکہ وبا کی روک تھام سے متعلق چین کی پالیسیوں کے فوائد کے بارے میں بھی بتاتا ہے۔
ڈویجن کے خیال میں یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ نہ صرف ڈیٹا کلیکشن کی سطح پر متعصب ہے بلکہ چین کے مسائل کو بھی ٹارگٹ کرتا ہےاور حکومت کے بیانیے کو مضبوط کرتا ہے۔ اس کے علاوہ جب بھی اسے کسی ایسے کونٹینٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو چین میں "نہیں کہنا چاہیے" تو وہ اسے ڈیلیٹ کردیتا ہے اور فوری طور پر موضوع تبدیل کردیتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس ماڈل کے رویے میں ہم جانبدار ڈیٹا سے لے کر چین کے سرکاری بیانیے کو مضبوط کرنے اور نظریاتی سینسر شپ تک دیکھ سکتے ہیں۔
ان کے بقول اگر ڈیپ سیک کو سوشل میڈیا کی طرح بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے تو یہ لوگوں کے خیالات اور اظہارِ رائےکو کنٹرول کرنے کا ایک بہت اچھا ذریعہ بن سکتا ہے۔
واضح رہے کہ انٹرنیٹ کی ترقی کے دوران چین نے ہمیشہ "انٹرنیٹ فائروالز" کا استعمال کیا ہے تاکہ شہریوں کو بین الاقوامی سطح پر استعمال ہونے والی پروڈکٹس کے استعمال سے روکا جا سکے۔ اس کے بدلے میں چینی کمپنیوں نے اُسی طرح کے پروگرام تیار کیے ہیں۔
مثال کے طور پر گوگل سرچ انجن پر چین میں پابندی ہے اور اس کے بدلے وہاں مقامی سرچ انچن 'بائی ڈو'استعمال کیا جاتا ہے۔
اسی طرح سوشل اور کمیونی کیشن سافٹ ویئر میں 'ویبؤ' اور 'وی چیٹ' موجود ہیں۔ ان میں جو چیز مشترک ہے کہ وہ "حساس الفاظ" ہیں جو صارفین کو متعلقہ مواد کی تلاش یا پوسٹنگ سے روکتے ہیں۔
تائپے میں نیشنل تائیوان یونیورسٹی میں میکینکل انجینئرنگ کے پروفیسر لن زونگنین کہتے ہیں کہ سرچ انجنز کے مقابلے میں جنریٹو اے آئی کا لینگویج اور ٹیکسٹ پر کنٹرول زیادہ بہتر ہے۔ لہٰذا ڈیپ سیک چینی حکومت کے لیے رائے عامہ کو کنٹرول کرنے کا ایک نیا ٹول بن سکتا ہے۔
بین الاقوامی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے لن زونگنین کا ماننا ہے کہ ڈیپ سیک سے متعلق مغربی دنیا کی موجودہ دلچسپی زیادہ تر تکنیکی سطح پر ہے اور وہ یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ "چیٹ جی پی ٹی سے آگے" ہونے کا جو دعویٰ کیا گیا ہے، حقیقت میں ایسا ہے یا نہیں اور وہ مختلف "حساس الفاظ" کے ساتھ اس کے ردِعمل کو ٹیسٹ کر رہی ہے۔
ان کے بقول اس وقت ڈیپ سیک 'ٹک ٹاک' کی طرح مغربی آن لائن کمیونٹیز کے خیالات کو چیلنج نہیں کرسکتا۔ لیکن یہ خارج از امکان نہیں کہ برکس یا گلوبل ساؤتھ کے ممالک کے کچھ لوگ جو "چینی خطرے" کے لیے اتنے تیار نہیں اور کمزور تکنیکی طاقت رکھتے ہیں، ڈیپ سیک کو اس کے سستے ہونے کی وجہ سے ترجیح دے سکتے ہیں جس کی وجہ سے چین کے بیانیے کو قبول کرنے میں تقویت مل سکتی ہے۔
فورم